شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے
شیرِمیسور ٹیپوسلطان شہیدؒ
ہندوستانی تاریخ آزادی کا عظیم ہیرو حید رعلی ریاست میسور کے وزیر نند راج کا ملازم تھا، لیکن اپنی غیر معمولی شجاعت، بلند حوصلگی اور خداداد ذہانت سے ترقی کے مدارج طے کرتاہوا ایک دن ریاست کا حکمراں بن گیا۔ حیدر علی تعلیم یافتہ نہیں تھا لیکن وہ ایک بہترین سپہ سالار اور غیر معمولی تنظیمی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ حیدر علی 1761میں میسور پر قابض ہوا۔ ریاست کے راجاؤں کی نااہلی اور عیش پرستی نے ریاست کو تباہ کرکے رکھ دیاتھا۔ حیدر علی کو اقتدار سنبھالتے ہی چاروں طرف سے دشمنوں کی یلغار کا سامنا کرنا پرا۔ ایک طرف ہندوستان میں بہت بڑی طاقت بن چکے سازشی انگریز وں سے مقابلہ تھا تو دوسری جانب مرہٹے اور نظام دکن سے لڑنا پڑرہاتھا۔ حیدر علی نے بڑی حوش اسلوبی کے ساتھ ریاست میں اپنے اقتدار کو مضبوط کیا۔ اس کے دور حکومت میں ریاست کے عوام خوشحال ہوئے، وہ ایک سچا سیکولر حکمراں ثابت ہوا، اس کی سلطنت میں ہندوؤں کوبھی خوب ترقی کرنے کا موقع ملا۔ اس کے وزراء اور اعلیٰ عہدوں پر لائق ہندو فائز تھے۔ ریاست میں ہر طرف قانون اور انصاف کی بالادستی قائم تھی۔ حیدر علی انگریزوں کی نیت کو پہچان چکاتھااور انہیں ہندوستان کی آزادی کے لیے زبردست خطرہ سمجھتاتھا۔ انگریز حیدر علی کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف تھے اور اسے ختم کرنے کے در پے تھے لیکن حید رعلی بھی انگریز لٹیروں سے سرزمینِ وطن کو پاک کرنے کا عزم کرچکاتھا۔
1767میں انگریزوں کے ساتھ انگل (ریاست میسور)میں جو خوفناک جنگ شروع ہوئی وہ 2سال تک جاری رہی۔ اس جنگ میں مرہٹے اور نظام حیدر علی کے ساتھ تھے۔ 1769میں انگریزوں نے اس سے صلح کرلینا ہی بہتر سمجھا، دونوں جانب سے مقبوضہ علاقے ایک دوسرے کو واپس کردیے گئے۔ لیکن انگریزوں نے اس صلح نامہ کا احترام نہیں کیا۔1780میں انگریزوں نے حیدر علی کے علاقے ماہی پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ حیدر علی نے پوری قوت سے انگریزوں پر فوج کشی کی، لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے چالاک ترین سربراہ وارن ہسٹنگز نے مرہٹوں اورنظام کو ورغلا کر ملک سے دغا بازی پر راضی کرلیا۔ حیدر علی اس حالت میں بھی بڑی بہادری سے وطن دشمنوں کا مقابلہ کررہاتھا۔ انگریز اپنی تمام تر سازشوں اور اپنی بے پناہ فوجی طاقت کے باوجود حیدر علی کو شکست دینے میں ناکام رہے، اس دوران ایک جنگ میں حیدر علی بری طرح زخمی ہوا اور چندر روز بعد انتقال کرگیا۔
حیدر علی ہر لحاظ سے ایک لائق بہادر اور انصاف پسند حکمراں تھا، ہندوستانی تاریخ میں جس کا ثانی دکھائی نہیں دیتا۔1782میں حیدر علی کے انتقال سے انگریزوں کے اکھڑتے ہوئے قدم جمنے لگے، انہیں ہر محاذ پر نیچا دکھانے والا بہادر دنیا سے جاچکاتھا۔ حیدر علی کے انتقال کے بعد اس کے لائق فرزند فتح علی ٹیپو سلطان نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی۔
ٹیپو سلطان کی ولادت 1750میں ہوئی، تخت نشینی کے وقت اس کی عمر 32سال کی تھی۔ ٹیپو سلطان دینی ودنیوی علوم سے آراستہ نہایت نیک کردار، حق گو اور بلند حوصلہ نوجوان تھا۔ وہ عربی فارسی، اردو اور کنٹر زبانوں کے علاوہ انگریزی اور فرنچ میں بھی خاصی دستگاہ رکھتاتھا۔ اس کے ساتھ ہی ٹیپو بہترین فوجی تربیت سے آراستہ تھا۔ دراصل ہندوستانی تاریخ کا یہ نامور سپوت ایک اعلیٰ تربیت یافتہ ذہن دماغ کا مالک تھا، وہ بہت سے اہم علوم وفنون سے واقف تھا اور ہر موضوع پر ماہرانہ گفتگو کرسکتاتھا۔ ٹیپو اگرچہ اردو اور کنٹر زبانوں کا ماہر تھا لیکن عام طور پر فارسی میں ہی بات چیت کرتاتھا۔ ٹیپو کو سائنس، طب، انجینئرنگ،علم نجوم، موسیقی اور خطاطی سے بے حد لگاؤ تھا۔ اس کے عہد حکومت میں صنعت، تجارت، زراعت اور دیگر شعبہ ہائے حیات میں نمایاں انقلابی ترقیاں ہوئیں۔
ٹیپو سلطان نے اپنے والد کی قیادت میں جس بہادری اور دانشمندی کا ثبوت انگریزوں کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں دیاتھااس سے انگریز اس سے بری طرح خوفزدہ اور فکر مند تھے۔ یہ نوجوان حکمراں انگریزوں کی راہ میں ایک مضبوط چٹان کی طرح حائل تھا۔ درحقیقت سلطان حب الوطنی، قومی غیرت اور روحِ جہاد کا پیکر تھا۔ انگریز قوم کی سامراجی سازشوں سے نفرت اسے اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی۔ ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے وقت اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کیاتھا:’’ میں خدا کا ایک حقیر بندہ ہوں، میری زندگی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں لیکن میرا فرض ہے کہ جب تک زندہ رہوں،وطن کی آزادی کے لیے جہاد کرتا رہوں، ہزاروں انسان وطن کے لیے موت کے گھاٹ اترسکتے ہیں لیکن وطن سے محبت کے جذبات نہیں مٹ سکتے۔‘‘
انگریز قوم نے اپنی سامراجیت کی تاریخ میں ٹیپو سلطان سے زیادہ اور کسی کو اتنے خوف دہشت اور نفرت کا مرکز نہیں بنایا۔ انگریزاس نوجوان سربراہ ریاست کی لیاقت اور شجاعت کو سمجھ چکے تھے، انہیں یقین ہوگیاتھا کہ ٹیپو سلطان کی موجودگی میں ہندوستان پر پوری طرح تسلط جمالینا ان کے لیے ناممکن ہے۔ انگریز ٹیپو سے کس قدر خوف زدہ تھے،اس کا اندازہ گورنر جنرل لارڈ کارنوالس کے اس خط سے بہ آسانی ہوجاتاہے جو اس نے حیدر علی کی وفات اور ٹیپو سلطان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مدراس کے گورنر کو تحریر کیاتھا:
’’اس ملک (ہندوستان) میں اپنی عزت اور ساکھ قائم رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ ہم ٹیپو سلطان سے فیصلہ کن جنگ کریں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں نہ صرف ٹیپو سلطان کے خلاف لڑنا چاہیے بلکہ اس طاقت کو ہمیشہ کے لیے مٹا دینا چاہیے۔ موجودہ وقت سے بہتر کوئی وقت نہیں ہوسکتا ملک کی دوسری طاقتیں ہمارے ساتھ ہیں(نظام اور مرہٹے وغیرہ)اگر ٹیپو کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور فرانس اس حالت میں آجائے کہ ٹیپو کی مدد کرسکے تو اس صورت میں ہمیں ہمیشہ کے لیے ہندوستان کو خیر باد کہنا ہوگا۔‘‘
ڈیوک آف ولزلی جوسنہ 1796میں ہندوستان آیاتھا، اپنی یادداشت میں لکھتا ہے:
’’جب سے میں آیا ہوں، دیکھ رہاہوں کہ ٹیپو انگریزوں کے لیے مستقل ہوّا بنا ہواہے انگریز جب کسی کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں ’’ٹیپو سلطان کی فوج چل پڑی ہے۔‘‘
اس دور میں ٹیپو سلطان کی بہادری، دور اندیشی اور حکمت عملی سے انگریز ہندوستان میں ہی نہیں، انگلینڈ میں بھی اس کے نام سے ہراساں تھے۔ انگریزوں کی عورتیں اپنے بچوں کو ٹیپو کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں۔ سنہ 1792میں انگریزوں نے مرہٹوں اور نظام کو ملا کر ٹیپو پر زبردست حملہ کیا او راس کی سلطنت کے تقریباً آدھے علاقے پرقبضہ کرکے آپس میں بانٹ لیا۔ یہ شکست سلطان کے لیے زبردست اذیت اور ذلت کا باعث تھی جب اسے ہر طرف سے دشمنوں نے گھیر کر اس پر تین کروڑ تاوان جنگ لگایا جس میں سے ایک کروڑ فی الفور وصول کرلیاگیا اور باقی رقم کی ادائیگی کے لیے دوسال کی میعاد مقرر کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ضمانت کے طو رپر سلطان کے دوکمسن شہزادوں کو انگریزوں کے پاس یرغمال رکھنے کی شرمناک شرط رکھی گئی۔ یہ ذلت آمیز معاہدہ 23؍فروری 1792کو لکھاگیا۔کمپنی کے گورنر جنرل لارڈ کار نوالس کا خیال تھا کہ ایسی صورت میں جب کہ ٹیپو کی بچی کھچی ریاست کو بری طرح نقصان پہنچاہے وہ مقررہ وقت میں یہ رقم نہیں ادا کرسکے گا، اس طرح آسانی سے وہ اس کے علاقہ پر قابض ہوجائے گا لیکن مغربی مورخین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اپنی اس ناکامی سے شیر دل سلطان مایوس نہیں ہوااس نے پوری ہمت اور حوصلے کے ساتھ نہ صرف اپنی ریاست کے حالت سدھار ی بلکہ مقررہ وقت پر زر تاوان بھی ادا کرکے اپنے بچوں کو واپس لے لیا۔ اس نے زراعت، کاروبار، صنعت اور دوسرے شعبوں کی ترقی کے لیے اس طرح کے عملی اقدامات کیے کہ سلطنت کی حالت سدھر گئی۔
دشمن طاقتوں سے جو امن کا معاہدہ ہوچکاتھا ٹیپو سلطان نے اس کا پوری طرح احترام کیا، لیکن انگریز دیکھ رہے تھے کہ ٹیپو سلطان تیزی سے اپنی حالت سدھارتا جارہاہے۔ لارڈویلز لی نے اس زمانے میں جو خطوط لکھے تھے ان میں سلطان کی طرف سے زبردست خطرے کا احساس ظاہر کیاہے۔
نظام اور مرہٹہ سربراہ پیشواکو اپنی سازش کے جال میں جکڑنے کے بعد انگریزوں نے ٹیپو سلطان کو کچل ڈالنے کی تیاری شروع کردی۔ سلطان پر حملہ کرنے کے لیے اس پر یہ جھوٹا الزام عائد کیاگیا کہ وہ فرانسسیوں سے ساز باز کررہا ہے اور ان سے مل کر انگریزوں پر حملہ کرنے والا ہے۔الزام میں کہاگیا کہ ماریشش میں فرانسیسوں نے ایک اعلان شائع کیا ہے کہ جس کے مطابق ٹیپو سلطان نے وہاں اپنی سفارت بھیج کر فرانسیسوں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انگریزوں نے اس الزام کے بارے میں سلطان سے بات چیت کرنے کے بجائے اس پر فیصلہ کن حملے کی تیاری شروع کردی۔ ٹیپو سلطان نے کئی بار نظام اور مرہٹوں کی غیرت کو جگانے کی کوشش کی یہاں تک کہ نظام کے ساتھ رشتہ داری قائم کرنے تک کی پیشکش کی لیکن ان کے ضمیر سوچکے تھے انہوں نے انگریز کی غلامی کا طوق معاہدوں کی صورت میں پہلے ہی پہن لیاتھا۔ سلطان نے دہلی کے بادشاہ شاہ عالم ثانی کو بھی ایک خط ارسال کیا تھاجس میں وطن کی آزادی اور دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے اس کی جنگ میں تعاون کی اپیل کی گئی تھی، لیکن شاہ عالم تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں بک چکا تھا،وہ کیا مدد کرسکتاتھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ سلطان نے انگریزوں کی لعنت سے اس ملک کو ہمیشہ کے لیے آزاد کرانے کے لیے افغانستان، ترکی اور بلاد عربیہ کے بشمول کئی اسلامی ممالک سے مدد کی اپیل کی لیکن کہیں سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا اور وطن پر مرمٹنے کی آرزو رکھنے والا یہ مرد مجاہد تنہا دشمنانِ وطن کا پوری پامردی سے مقابلہ کرتارہا۔
لارڈ ویلز لی ایک طرف تو ٹیپو پر زبردست حملے کی تیاریاں کررہا تھا دوسری طرف اسے دھوکے میں رکھنے کے لیے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھارہاتھا۔ایک مقبوضہ علاقہ بائی نادسلطان کو لوٹا کر اسے یقین دلادیا کہ انگریز امن معاہدے کے پابند ہیں۔ اسی دوران شمالی مصرمیں جنرل نکلسن کی قیادت میں برطانوی افواج نے فرانس کا بحری بیڑا پوری طرح برباد کردیا، اس کے بعد فرانسیسیوں کی جانب سے کسی طرح کی مدد ٹیپو سلطان کو ملنے کا سوال نہ تھا۔ٹیپو کو مزید دھوکے میں رکھنے کے لیے اس پر دباؤ ڈالاگیا کہ ایک انگریز افسر میجر ڈگلس سلطان کے دربار میں بھیجا جائے گا تاکہ جن علاقوں کی کمپنی کو ضرورت ہے وہ اس سے مانگ لیے جائیں، یہ ایک طر ح سے سلطان کے ساتھ چھیڑ خانی کی شروعات تھی۔ معاہدہ امن جو ٹیپو سلطان نے انگریزوں، مرہٹوں اور نظام کے ساتھ کیاتھا اس پر وہ پوری طرح کار بند رہا، اس نے کئی بار انگریزوں کو اپنی جانب سے کوئی ایسی کارروائی نہ کرنے کا یقین بھی دلایا جس سے معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہو،لیکن انگریزتویہ طے کرچکے تھے کہ اپنے لیے اس سب سے بڑے خطرے کو مٹا کر ہی دم لیں گے۔ برطانوی افواج کلکتہ سے چل کر مدراس میں جمع ہوگئیں خودلارڈ ویلزلی اس جنگ میں شامل ہونے کے لیے کلکتہ سے مدراس پہنچ گیا۔9؍جنوری 1799کو ٹیپو سلطان کو ایک گستاخانہ پیغام بھیجا گیا کہ وہ اپنے تمام ساحلی علاقے اور بندر گاہیں 24گھنٹے کے اندر برطانوی فوج کے حوالے کردے۔اس دھمکی آمیز پیغام کے بعد سلطان کو پوری طرح یہ احساس ہوگیا کہ دغا باز انگریز قوم کے لیے سیاسی اخلاقیات اور معاہدوں کی پاسداری کوئی معنی نہیں رکھتی جب کہ ہندوستانیوں نے ہمیشہ دوستانہ معاہدوں کا احترام کیا ہے۔
ٹیپو سلطان کی غیرتِ ایمانی جوش میںآگئی اور اس نے مزید جھکنے کے بجائے میدانِ جنگ میں فیصلہ کرنے کو ترجیح دی۔ اس نے اعلان کیا کہ ’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار دن کی زندگی سے بہتر ہے۔‘‘ اور پھر ایک دن حملہ آور فوج کے ساتھ خوفناک جنگ ہوئی۔ سلطان اپنے جانباز سپاہیوں کے ساتھ زخمی شیر کی طرح برطانوی فوجوں پر ٹو ٹ پرا۔ سلطانی فوج کی یہ یلغار بہت شدید تھی انگریزوں کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ سلطان نے اپنے ایک معتمد سپہ سالار کو اپنے دستے کے ساتھ آگے بڑھ کر دشمن کو تباہ کردینے کا حکم دیالیکن یہ سردار قمر الدین خان انگریزوں کے ہاتھ اپنی غیرت، حمیت اور ایمان کا سودا کرچکاتھا، اس نے اپنے سواروں کو آگے بڑھایا لیکن پھر وہ اس کے حکم پر پلٹے اور خود سلطان کی فوج پر ہی ٹوٹ پرے، قمرالدین خاں کی اس غداری سے سلطانی قوم کو پسپا ہونا پڑا اور انگریزوں نے ایک طرح سے اس معرکہ میں فتح حاصل کرلی۔
ابھی ٹیپو سلطان سنبھل بھی نہیں پایاتھا کہ اسے معلوم ہوا کہ انگریزوں کی دوسری فوج جنرل اسٹیورٹ کی قیادت میں بڑھی چلی آرہی ہے۔ اس فوج کو میسور پہنچنے سے پہلے ہی روک دینے کی غرض سے سلطانی لشکر نے کوچ کیا، دو دن کے مسلسل سفر کے بعد تیزی سے آرہی انگریز فوج کو جالیا اور اس پرایسا زبردست حملہ کیا کہ انگریز سپاہی ٹھہر نہ سکے، ان کے بہت سے سپاہی اور افسر ہلاک ہوئے۔ انگریز ی فوج کے بہت سے سپاہی بھاگ کر جنگلوں میں جاچھپے۔ ٹیپو سلطان کی تلوار انگریزوں پر قہر بن کر گری تھی۔ سلطان کے جاسوسوں نے اطلاع دی تھی کہ شکست خوردہ انگریز سپاہی اب لڑنا نہیں چاہتے۔ٹیپو سلطان اپنی فاتح فوج کے ساتھ سری رنگا پٹنم کی طرف روانہ ہوگیا۔خبر آچکی تھی کہ جنرل ہارس شہر کی طرف بڑھ رہاہے۔ سلطانی فوج سری رنگا پٹنم کے قلعے میں پہنچ گئی۔ جنرل ہارس کی فوجوں نے شہر اور قلعے پر آگ اور توپ کے گولے برسانے شروع کردیے۔ ٹیپو کی فوج میں اس کے انتہائی با اعتماد وزیر پورنیہ پنڈت اور میر صادق جیسے غدار وں کی خفیہ سازشیں جاری تھیں۔ قلعے پر آگ برس رہی تھی اورلا تعداد زندگیاں اس کی نذر ہورہی تھیں ایسے میں سلطان سے اس کے کچھ خاص مشیروں نے کہا کہ وہ سرنگوں کی راہ سے قلعے سے فرار ہوجائے اور باہر رہ کر انگریزوں سے مصالحت کی کوشش کرے، لیکن اب پیچھے ہٹنا سلطان کے ایمانی جذبے اور وطنی غیرت کے منافی تھا،سلطان نے تو آخری وقت تک انگریزوں سے مقابلہ کرنے کی قسم کھائی تھی۔
4؍مئی 1799کی صبح جب سلطان فجر کی نماز سے فارغ ہوا تو اس کومشیروں نے پھر یہ مشورہ دیا کہ اس نازک وقت میں جب کہ انگریزی فوجوں نے قلعے کو پوری طرح نرغے میں لے لیا ہے، آپ اس نازک وقت میں اپنے بچوں کو یتیم ہونے سے بچانے کے لیے انگریزوں سے مصالحت کی کوشش کریں۔ سلطان نے یہ بات سن کر کہا:
’’یہ ملک خدا داد ہماری رعیت اور بالخصوص مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ ہم نے اپنے وطن عزیز کی حفاظت کے لیے مسلسل کوشش کی ہے،میں جانتا ہوں کہ میرے غدار وزراء اورافسران اس کی تباہی میں لگے رہے، اب وہ اپنی غداری اور بداعمالی کا مزہ چکھیں گے۔ جہاں تک میری ذات کا سوال ہے میں اپنی جان مال،آل واولاد کو اپنے دین پر قربان کرچکا، انسان کو صرف ایک بار موت آتی ہے، موت سے خوفزدہ ہونا بے معنی ہے۔‘‘
سری رنگا پٹنم کے قلعے میں مہتاب باغ کا مورچہ بے حد اہم تھا جہاں سلطان کا نہایت وفادار اور بہادر افسر سیدغفا راپنے جانثاروں کے ساتھ تعینات تھا۔ یہ یقین کے ساتھ سمجھا جاتا تھا کہ سید غفارجیسے سپہ سالار کی موجودگی میں انگریز فوجوں کی کامیابی ممکن نہیں ہے، اس لیے سلطان کے نمک حرام وزیرمیر صادق اور اس کے سازشی ساتھیوں نے سید غفار کو کسی طرح وہاں سے ہٹوا کر قتل کرادیااور غدار سپاہیوں نے مہتاب باغ کا دروازہ کھول دیا۔ انگریزی فوج قلعے میں داخل ہوگئی۔ وہ دوپہر کا وقت تھا۔ سلطان خاصہ تناول کرنے بیٹھا تھا، ابھی پہلا لقمہ اٹھایا ہی تھا کہ اس کو سید غفار کی شہادت اور قلعے کا دروازہ کھلنے کی خبر ملی۔ سلطان شہادت کی راہ پر آگے بڑھنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، اس کے وفادار سپاہی ساتھ تھے۔ سلطان نے ہتھیار سنبھالے، گھوڑے پر سوار ہو اور دوسرے دروازے سے باہر نکل کر انگریز حملہ آوروں کے لشکر جرار سے جا بھڑا۔ سلطان نے بڑی دلیری کے ساتھ جنگ کی اور دشمنوں کی لاشوں کے ڈھیر لگادیے۔ چونکہ انگریزی سپاہ کی تعدادبہت زیادہ تھی اس لیے اس نے پیچھے ہٹ کر قلعے میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن نمک حرام میر صادق نے وہ دروازہ ہی بند کرادیا جس سے سلطان باہر نکلاتھا۔ اب زندگی اور موت کے فیصلے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ شیر نے پلٹ کر ظالم انگریزوں پر حملہ کیا،وہ دوپہر سے مسلسل لڑرہاتھا، زخمی بھی ہوچکاتھا، اسے کئی گولیاں لگ چکی تھیں،اب دن ڈھل رہاتھا، سلطان پیاس سے بے حال تھا، اس نے اپنے خادم راجہ خان سے پانی مانگا، لیکن وہ کمبخت بھی غداروں کے ساتھ مل چکاتھا، اس کے پاس مشکیزے میں پانی تھا لیکن اس نے اسی طرح شقاوت کا مظاہرہ کیا جیسے حضرت امام حسینؓ کے ساتھ یزیدیوں نے کربلا کے میدان میں کیاتھا۔ تبھی دشمن کی ایک گولی سلطان کا سینہ چیر گئی، زخمی شیر زمین پر گرگیا لیکن وہ شیر دل اس حالت میں بھی جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اس کی تلوار اب بھی ہاتھ میں تھی، خون میں نہاتے ہوئے اس زخمی مجاہد نے جھپٹ کر حملہ کیا اور کئی انگریزوں کو جہنم رسید کردیا۔ دشمنوں نے اس پر گولیوں کی بوچھارکردی، ایک گولی کپنٹی پر لگی اور آزادیِ وطن کا یہ جانباز مجاہد شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگیا۔ ملک کو آزاد کرانے والی تلوار گم ہوگئی جیسا کہ ایک شاعر نے ’شمشیر گم شد‘کے الفاظ سے شہادت کی تاریخ کے اعداد برآمد کیے ہیں۔
غدار میرصادق کا انجام یہ ہواکہ سلطان کی شہادت سے قبل وہ ایک کھڑکی سے باہر نکل جانا چاہتاتھا کہ سلطان کے ایک وفادار دل سوختہ سپاہی نے اس سے کہا، ’’مردوداپنے آقا کو پھنسوا کر کہاں جاتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر تلوار سے اس کا کام تمام کردیا۔
ٹیپو سلطان کی شہادت انگریزوں کے لیے سب سے بڑی کامیابی تھی، ٹیپو سلطان کی شہادت کی خبر پاکر جنرل ہارس نے بے حد معنی خیز نعرہ لگایاتھا۔ ’’اب ہندوستان ہماراہے۔‘‘
میسور کی آبادی اکثریت میں ہندو تھی۔ ہندوؤں کے ساتھ ٹیپو سلطان کے دوراقتدار میں کہیں بھی نازیبا اور غیر منصفانہ برتاؤ کیاگیاہو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،اس کے برعکس اپنی ہندو رعایا کے ساتھ اس کے محبت آمیز رویے کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ ٹیپو سلطان کے دربار میں آخر تک اعلیٰ ترین عہدے ہندوؤں کو ملے ہوئے تھے، پورنیہ پنڈت ٹیپو کا وزیر اعظم تھا، کرشن راؤ بھی وزیر تھا۔ ان دونوں کا دربار میں بے حد اثر اور دبدبہ قائم تھا۔ ٹیپو کے دربار میں سفارتوں اور نقیبوں کا کام کرنے کے لیے بہت سے برہمن مقرر تھے۔ دربار میں پجاریوں اور جیوتشیوں کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ شرنگیری مٹھ کے شنکر اچاریہ سوامی سچد انند شاستری سے ٹیپو کو خاص عقیدت تھی، شنکر اچاریہ کے نام اس کے 30سے زائد خطوط موجود ہیں جن سے ٹیپو سلطان کی آچاریہ سے دوستی اور محبت کا پتہ چلتاہے۔ ٹیپو سلطان راسخ العقیدہ مسلمان تھا لیکن اپنی قلمرو میں اس نے متعدد مندروں کو بڑی بڑی جاگیریں دیں جن میں ننجم گڈا، سری رنگا پٹنم اور میلکوٹ کے مندر شامل ہیں بنگلور میں ٹیپو سلطان کے زنانہ محل کے عین سامنے سری وینکٹ رامن کا مندر اور محلات بالکل ملے ہوئے ہیںیہ مشہور اورقدیم منادر سلطان کی مذہبی رواداری کے شاہد ہیں۔
شہید وطن ٹیپو سلطان نے اپنی سلطنت میں عدل ومساوات کا پرچم بلند کیا۔ جاگیر داری کا خاتمہ کیا اور ملک کواقتصادی طور پر اس طرح خوشحال کردیا کہ وہ دنیا کا عظیم مدبر حکمراں بن گیا۔ ٹیپو سلطان کی حکومت کے بارے میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے لکھاتھا۔’’ میسور ہندوستان میں سب سے زیادہ سرسبز علاقہ ہے۔ یہاں ٹیپو کی حکمرانی ہے، میسور کے باشندے ہندوستان میں سب سے زیادہ خوشحال ہیں۔
سلطان ٹیپو نے رعایا کی بہبودی کے لیے بینک کھولے جس سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو زیادہ منافع ملتاتھا۔بینکوں کے ماتحت ضروریات زندگی کی دکانیں کھولی گئی تھیں، ٹیپو سلطان نے تجارت کے فروغ کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا۔ ریاست میں پولس کا معقول بندوبست تھا۔ جس افسر کے علاقے میں کوئی واردات ہوتی اس کا ذمہ دار وہ پولس افسر ہوتاتھا اگر وہ ملزم کا سراغ نہ لگاسکتاتو تاوان کا ذمہ دار قرار پاتاتھا۔سلطان نے ہندوستان میں پہلی بار بحری فوج قائم کرنے کی کوشش کی اور حربی آلات بنانے کے شاندار کارخانے قائم کیے، جنگ میں راکٹ استعمال کرنے کا تصور سلطان نے سب سے پہلے پیش کیا۔
ہندوستان کی تاریخِ آزادی قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہر مذہب وملت کے مجاہدین نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں لیکن شہیدِ وطن ٹیپو سلطان جیسا لائق حکمراں اور سرفروش مجاہد آزادی کسی اور ہندوستانی قوم نے آج تک پیدا نہیں کیا۔
شیرِمیسور ٹیپوسلطان شہیدؒ
ہندوستانی تاریخ آزادی کا عظیم ہیرو حید رعلی ریاست میسور کے وزیر نند راج کا ملازم تھا، لیکن اپنی غیر معمولی شجاعت، بلند حوصلگی اور خداداد ذہانت سے ترقی کے مدارج طے کرتاہوا ایک دن ریاست کا حکمراں بن گیا۔ حیدر علی تعلیم یافتہ نہیں تھا لیکن وہ ایک بہترین سپہ سالار اور غیر معمولی تنظیمی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ حیدر علی 1761میں میسور پر قابض ہوا۔ ریاست کے راجاؤں کی نااہلی اور عیش پرستی نے ریاست کو تباہ کرکے رکھ دیاتھا۔ حیدر علی کو اقتدار سنبھالتے ہی چاروں طرف سے دشمنوں کی یلغار کا سامنا کرنا پرا۔ ایک طرف ہندوستان میں بہت بڑی طاقت بن چکے سازشی انگریز وں سے مقابلہ تھا تو دوسری جانب مرہٹے اور نظام دکن سے لڑنا پڑرہاتھا۔ حیدر علی نے بڑی حوش اسلوبی کے ساتھ ریاست میں اپنے اقتدار کو مضبوط کیا۔ اس کے دور حکومت میں ریاست کے عوام خوشحال ہوئے، وہ ایک سچا سیکولر حکمراں ثابت ہوا، اس کی سلطنت میں ہندوؤں کوبھی خوب ترقی کرنے کا موقع ملا۔ اس کے وزراء اور اعلیٰ عہدوں پر لائق ہندو فائز تھے۔ ریاست میں ہر طرف قانون اور انصاف کی بالادستی قائم تھی۔ حیدر علی انگریزوں کی نیت کو پہچان چکاتھااور انہیں ہندوستان کی آزادی کے لیے زبردست خطرہ سمجھتاتھا۔ انگریز حیدر علی کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف تھے اور اسے ختم کرنے کے در پے تھے لیکن حید رعلی بھی انگریز لٹیروں سے سرزمینِ وطن کو پاک کرنے کا عزم کرچکاتھا۔
1767میں انگریزوں کے ساتھ انگل (ریاست میسور)میں جو خوفناک جنگ شروع ہوئی وہ 2سال تک جاری رہی۔ اس جنگ میں مرہٹے اور نظام حیدر علی کے ساتھ تھے۔ 1769میں انگریزوں نے اس سے صلح کرلینا ہی بہتر سمجھا، دونوں جانب سے مقبوضہ علاقے ایک دوسرے کو واپس کردیے گئے۔ لیکن انگریزوں نے اس صلح نامہ کا احترام نہیں کیا۔1780میں انگریزوں نے حیدر علی کے علاقے ماہی پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ حیدر علی نے پوری قوت سے انگریزوں پر فوج کشی کی، لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے چالاک ترین سربراہ وارن ہسٹنگز نے مرہٹوں اورنظام کو ورغلا کر ملک سے دغا بازی پر راضی کرلیا۔ حیدر علی اس حالت میں بھی بڑی بہادری سے وطن دشمنوں کا مقابلہ کررہاتھا۔ انگریز اپنی تمام تر سازشوں اور اپنی بے پناہ فوجی طاقت کے باوجود حیدر علی کو شکست دینے میں ناکام رہے، اس دوران ایک جنگ میں حیدر علی بری طرح زخمی ہوا اور چندر روز بعد انتقال کرگیا۔
حیدر علی ہر لحاظ سے ایک لائق بہادر اور انصاف پسند حکمراں تھا، ہندوستانی تاریخ میں جس کا ثانی دکھائی نہیں دیتا۔1782میں حیدر علی کے انتقال سے انگریزوں کے اکھڑتے ہوئے قدم جمنے لگے، انہیں ہر محاذ پر نیچا دکھانے والا بہادر دنیا سے جاچکاتھا۔ حیدر علی کے انتقال کے بعد اس کے لائق فرزند فتح علی ٹیپو سلطان نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی۔
ٹیپو سلطان کی ولادت 1750میں ہوئی، تخت نشینی کے وقت اس کی عمر 32سال کی تھی۔ ٹیپو سلطان دینی ودنیوی علوم سے آراستہ نہایت نیک کردار، حق گو اور بلند حوصلہ نوجوان تھا۔ وہ عربی فارسی، اردو اور کنٹر زبانوں کے علاوہ انگریزی اور فرنچ میں بھی خاصی دستگاہ رکھتاتھا۔ اس کے ساتھ ہی ٹیپو بہترین فوجی تربیت سے آراستہ تھا۔ دراصل ہندوستانی تاریخ کا یہ نامور سپوت ایک اعلیٰ تربیت یافتہ ذہن دماغ کا مالک تھا، وہ بہت سے اہم علوم وفنون سے واقف تھا اور ہر موضوع پر ماہرانہ گفتگو کرسکتاتھا۔ ٹیپو اگرچہ اردو اور کنٹر زبانوں کا ماہر تھا لیکن عام طور پر فارسی میں ہی بات چیت کرتاتھا۔ ٹیپو کو سائنس، طب، انجینئرنگ،علم نجوم، موسیقی اور خطاطی سے بے حد لگاؤ تھا۔ اس کے عہد حکومت میں صنعت، تجارت، زراعت اور دیگر شعبہ ہائے حیات میں نمایاں انقلابی ترقیاں ہوئیں۔
ٹیپو سلطان نے اپنے والد کی قیادت میں جس بہادری اور دانشمندی کا ثبوت انگریزوں کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں دیاتھااس سے انگریز اس سے بری طرح خوفزدہ اور فکر مند تھے۔ یہ نوجوان حکمراں انگریزوں کی راہ میں ایک مضبوط چٹان کی طرح حائل تھا۔ درحقیقت سلطان حب الوطنی، قومی غیرت اور روحِ جہاد کا پیکر تھا۔ انگریز قوم کی سامراجی سازشوں سے نفرت اسے اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی۔ ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے وقت اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کیاتھا:’’ میں خدا کا ایک حقیر بندہ ہوں، میری زندگی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں لیکن میرا فرض ہے کہ جب تک زندہ رہوں،وطن کی آزادی کے لیے جہاد کرتا رہوں، ہزاروں انسان وطن کے لیے موت کے گھاٹ اترسکتے ہیں لیکن وطن سے محبت کے جذبات نہیں مٹ سکتے۔‘‘
انگریز قوم نے اپنی سامراجیت کی تاریخ میں ٹیپو سلطان سے زیادہ اور کسی کو اتنے خوف دہشت اور نفرت کا مرکز نہیں بنایا۔ انگریزاس نوجوان سربراہ ریاست کی لیاقت اور شجاعت کو سمجھ چکے تھے، انہیں یقین ہوگیاتھا کہ ٹیپو سلطان کی موجودگی میں ہندوستان پر پوری طرح تسلط جمالینا ان کے لیے ناممکن ہے۔ انگریز ٹیپو سے کس قدر خوف زدہ تھے،اس کا اندازہ گورنر جنرل لارڈ کارنوالس کے اس خط سے بہ آسانی ہوجاتاہے جو اس نے حیدر علی کی وفات اور ٹیپو سلطان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مدراس کے گورنر کو تحریر کیاتھا:
’’اس ملک (ہندوستان) میں اپنی عزت اور ساکھ قائم رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ ہم ٹیپو سلطان سے فیصلہ کن جنگ کریں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں نہ صرف ٹیپو سلطان کے خلاف لڑنا چاہیے بلکہ اس طاقت کو ہمیشہ کے لیے مٹا دینا چاہیے۔ موجودہ وقت سے بہتر کوئی وقت نہیں ہوسکتا ملک کی دوسری طاقتیں ہمارے ساتھ ہیں(نظام اور مرہٹے وغیرہ)اگر ٹیپو کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور فرانس اس حالت میں آجائے کہ ٹیپو کی مدد کرسکے تو اس صورت میں ہمیں ہمیشہ کے لیے ہندوستان کو خیر باد کہنا ہوگا۔‘‘
ڈیوک آف ولزلی جوسنہ 1796میں ہندوستان آیاتھا، اپنی یادداشت میں لکھتا ہے:
’’جب سے میں آیا ہوں، دیکھ رہاہوں کہ ٹیپو انگریزوں کے لیے مستقل ہوّا بنا ہواہے انگریز جب کسی کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں ’’ٹیپو سلطان کی فوج چل پڑی ہے۔‘‘
اس دور میں ٹیپو سلطان کی بہادری، دور اندیشی اور حکمت عملی سے انگریز ہندوستان میں ہی نہیں، انگلینڈ میں بھی اس کے نام سے ہراساں تھے۔ انگریزوں کی عورتیں اپنے بچوں کو ٹیپو کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں۔ سنہ 1792میں انگریزوں نے مرہٹوں اور نظام کو ملا کر ٹیپو پر زبردست حملہ کیا او راس کی سلطنت کے تقریباً آدھے علاقے پرقبضہ کرکے آپس میں بانٹ لیا۔ یہ شکست سلطان کے لیے زبردست اذیت اور ذلت کا باعث تھی جب اسے ہر طرف سے دشمنوں نے گھیر کر اس پر تین کروڑ تاوان جنگ لگایا جس میں سے ایک کروڑ فی الفور وصول کرلیاگیا اور باقی رقم کی ادائیگی کے لیے دوسال کی میعاد مقرر کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ضمانت کے طو رپر سلطان کے دوکمسن شہزادوں کو انگریزوں کے پاس یرغمال رکھنے کی شرمناک شرط رکھی گئی۔ یہ ذلت آمیز معاہدہ 23؍فروری 1792کو لکھاگیا۔کمپنی کے گورنر جنرل لارڈ کار نوالس کا خیال تھا کہ ایسی صورت میں جب کہ ٹیپو کی بچی کھچی ریاست کو بری طرح نقصان پہنچاہے وہ مقررہ وقت میں یہ رقم نہیں ادا کرسکے گا، اس طرح آسانی سے وہ اس کے علاقہ پر قابض ہوجائے گا لیکن مغربی مورخین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اپنی اس ناکامی سے شیر دل سلطان مایوس نہیں ہوااس نے پوری ہمت اور حوصلے کے ساتھ نہ صرف اپنی ریاست کے حالت سدھار ی بلکہ مقررہ وقت پر زر تاوان بھی ادا کرکے اپنے بچوں کو واپس لے لیا۔ اس نے زراعت، کاروبار، صنعت اور دوسرے شعبوں کی ترقی کے لیے اس طرح کے عملی اقدامات کیے کہ سلطنت کی حالت سدھر گئی۔
دشمن طاقتوں سے جو امن کا معاہدہ ہوچکاتھا ٹیپو سلطان نے اس کا پوری طرح احترام کیا، لیکن انگریز دیکھ رہے تھے کہ ٹیپو سلطان تیزی سے اپنی حالت سدھارتا جارہاہے۔ لارڈویلز لی نے اس زمانے میں جو خطوط لکھے تھے ان میں سلطان کی طرف سے زبردست خطرے کا احساس ظاہر کیاہے۔
نظام اور مرہٹہ سربراہ پیشواکو اپنی سازش کے جال میں جکڑنے کے بعد انگریزوں نے ٹیپو سلطان کو کچل ڈالنے کی تیاری شروع کردی۔ سلطان پر حملہ کرنے کے لیے اس پر یہ جھوٹا الزام عائد کیاگیا کہ وہ فرانسسیوں سے ساز باز کررہا ہے اور ان سے مل کر انگریزوں پر حملہ کرنے والا ہے۔الزام میں کہاگیا کہ ماریشش میں فرانسیسوں نے ایک اعلان شائع کیا ہے کہ جس کے مطابق ٹیپو سلطان نے وہاں اپنی سفارت بھیج کر فرانسیسوں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انگریزوں نے اس الزام کے بارے میں سلطان سے بات چیت کرنے کے بجائے اس پر فیصلہ کن حملے کی تیاری شروع کردی۔ ٹیپو سلطان نے کئی بار نظام اور مرہٹوں کی غیرت کو جگانے کی کوشش کی یہاں تک کہ نظام کے ساتھ رشتہ داری قائم کرنے تک کی پیشکش کی لیکن ان کے ضمیر سوچکے تھے انہوں نے انگریز کی غلامی کا طوق معاہدوں کی صورت میں پہلے ہی پہن لیاتھا۔ سلطان نے دہلی کے بادشاہ شاہ عالم ثانی کو بھی ایک خط ارسال کیا تھاجس میں وطن کی آزادی اور دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے اس کی جنگ میں تعاون کی اپیل کی گئی تھی، لیکن شاہ عالم تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں بک چکا تھا،وہ کیا مدد کرسکتاتھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ سلطان نے انگریزوں کی لعنت سے اس ملک کو ہمیشہ کے لیے آزاد کرانے کے لیے افغانستان، ترکی اور بلاد عربیہ کے بشمول کئی اسلامی ممالک سے مدد کی اپیل کی لیکن کہیں سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا اور وطن پر مرمٹنے کی آرزو رکھنے والا یہ مرد مجاہد تنہا دشمنانِ وطن کا پوری پامردی سے مقابلہ کرتارہا۔
لارڈ ویلز لی ایک طرف تو ٹیپو پر زبردست حملے کی تیاریاں کررہا تھا دوسری طرف اسے دھوکے میں رکھنے کے لیے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھارہاتھا۔ایک مقبوضہ علاقہ بائی نادسلطان کو لوٹا کر اسے یقین دلادیا کہ انگریز امن معاہدے کے پابند ہیں۔ اسی دوران شمالی مصرمیں جنرل نکلسن کی قیادت میں برطانوی افواج نے فرانس کا بحری بیڑا پوری طرح برباد کردیا، اس کے بعد فرانسیسیوں کی جانب سے کسی طرح کی مدد ٹیپو سلطان کو ملنے کا سوال نہ تھا۔ٹیپو کو مزید دھوکے میں رکھنے کے لیے اس پر دباؤ ڈالاگیا کہ ایک انگریز افسر میجر ڈگلس سلطان کے دربار میں بھیجا جائے گا تاکہ جن علاقوں کی کمپنی کو ضرورت ہے وہ اس سے مانگ لیے جائیں، یہ ایک طر ح سے سلطان کے ساتھ چھیڑ خانی کی شروعات تھی۔ معاہدہ امن جو ٹیپو سلطان نے انگریزوں، مرہٹوں اور نظام کے ساتھ کیاتھا اس پر وہ پوری طرح کار بند رہا، اس نے کئی بار انگریزوں کو اپنی جانب سے کوئی ایسی کارروائی نہ کرنے کا یقین بھی دلایا جس سے معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہو،لیکن انگریزتویہ طے کرچکے تھے کہ اپنے لیے اس سب سے بڑے خطرے کو مٹا کر ہی دم لیں گے۔ برطانوی افواج کلکتہ سے چل کر مدراس میں جمع ہوگئیں خودلارڈ ویلزلی اس جنگ میں شامل ہونے کے لیے کلکتہ سے مدراس پہنچ گیا۔9؍جنوری 1799کو ٹیپو سلطان کو ایک گستاخانہ پیغام بھیجا گیا کہ وہ اپنے تمام ساحلی علاقے اور بندر گاہیں 24گھنٹے کے اندر برطانوی فوج کے حوالے کردے۔اس دھمکی آمیز پیغام کے بعد سلطان کو پوری طرح یہ احساس ہوگیا کہ دغا باز انگریز قوم کے لیے سیاسی اخلاقیات اور معاہدوں کی پاسداری کوئی معنی نہیں رکھتی جب کہ ہندوستانیوں نے ہمیشہ دوستانہ معاہدوں کا احترام کیا ہے۔
ٹیپو سلطان کی غیرتِ ایمانی جوش میںآگئی اور اس نے مزید جھکنے کے بجائے میدانِ جنگ میں فیصلہ کرنے کو ترجیح دی۔ اس نے اعلان کیا کہ ’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار دن کی زندگی سے بہتر ہے۔‘‘ اور پھر ایک دن حملہ آور فوج کے ساتھ خوفناک جنگ ہوئی۔ سلطان اپنے جانباز سپاہیوں کے ساتھ زخمی شیر کی طرح برطانوی فوجوں پر ٹو ٹ پرا۔ سلطانی فوج کی یہ یلغار بہت شدید تھی انگریزوں کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ سلطان نے اپنے ایک معتمد سپہ سالار کو اپنے دستے کے ساتھ آگے بڑھ کر دشمن کو تباہ کردینے کا حکم دیالیکن یہ سردار قمر الدین خان انگریزوں کے ہاتھ اپنی غیرت، حمیت اور ایمان کا سودا کرچکاتھا، اس نے اپنے سواروں کو آگے بڑھایا لیکن پھر وہ اس کے حکم پر پلٹے اور خود سلطان کی فوج پر ہی ٹوٹ پرے، قمرالدین خاں کی اس غداری سے سلطانی قوم کو پسپا ہونا پڑا اور انگریزوں نے ایک طرح سے اس معرکہ میں فتح حاصل کرلی۔
ابھی ٹیپو سلطان سنبھل بھی نہیں پایاتھا کہ اسے معلوم ہوا کہ انگریزوں کی دوسری فوج جنرل اسٹیورٹ کی قیادت میں بڑھی چلی آرہی ہے۔ اس فوج کو میسور پہنچنے سے پہلے ہی روک دینے کی غرض سے سلطانی لشکر نے کوچ کیا، دو دن کے مسلسل سفر کے بعد تیزی سے آرہی انگریز فوج کو جالیا اور اس پرایسا زبردست حملہ کیا کہ انگریز سپاہی ٹھہر نہ سکے، ان کے بہت سے سپاہی اور افسر ہلاک ہوئے۔ انگریز ی فوج کے بہت سے سپاہی بھاگ کر جنگلوں میں جاچھپے۔ ٹیپو سلطان کی تلوار انگریزوں پر قہر بن کر گری تھی۔ سلطان کے جاسوسوں نے اطلاع دی تھی کہ شکست خوردہ انگریز سپاہی اب لڑنا نہیں چاہتے۔ٹیپو سلطان اپنی فاتح فوج کے ساتھ سری رنگا پٹنم کی طرف روانہ ہوگیا۔خبر آچکی تھی کہ جنرل ہارس شہر کی طرف بڑھ رہاہے۔ سلطانی فوج سری رنگا پٹنم کے قلعے میں پہنچ گئی۔ جنرل ہارس کی فوجوں نے شہر اور قلعے پر آگ اور توپ کے گولے برسانے شروع کردیے۔ ٹیپو کی فوج میں اس کے انتہائی با اعتماد وزیر پورنیہ پنڈت اور میر صادق جیسے غدار وں کی خفیہ سازشیں جاری تھیں۔ قلعے پر آگ برس رہی تھی اورلا تعداد زندگیاں اس کی نذر ہورہی تھیں ایسے میں سلطان سے اس کے کچھ خاص مشیروں نے کہا کہ وہ سرنگوں کی راہ سے قلعے سے فرار ہوجائے اور باہر رہ کر انگریزوں سے مصالحت کی کوشش کرے، لیکن اب پیچھے ہٹنا سلطان کے ایمانی جذبے اور وطنی غیرت کے منافی تھا،سلطان نے تو آخری وقت تک انگریزوں سے مقابلہ کرنے کی قسم کھائی تھی۔
4؍مئی 1799کی صبح جب سلطان فجر کی نماز سے فارغ ہوا تو اس کومشیروں نے پھر یہ مشورہ دیا کہ اس نازک وقت میں جب کہ انگریزی فوجوں نے قلعے کو پوری طرح نرغے میں لے لیا ہے، آپ اس نازک وقت میں اپنے بچوں کو یتیم ہونے سے بچانے کے لیے انگریزوں سے مصالحت کی کوشش کریں۔ سلطان نے یہ بات سن کر کہا:
’’یہ ملک خدا داد ہماری رعیت اور بالخصوص مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ ہم نے اپنے وطن عزیز کی حفاظت کے لیے مسلسل کوشش کی ہے،میں جانتا ہوں کہ میرے غدار وزراء اورافسران اس کی تباہی میں لگے رہے، اب وہ اپنی غداری اور بداعمالی کا مزہ چکھیں گے۔ جہاں تک میری ذات کا سوال ہے میں اپنی جان مال،آل واولاد کو اپنے دین پر قربان کرچکا، انسان کو صرف ایک بار موت آتی ہے، موت سے خوفزدہ ہونا بے معنی ہے۔‘‘
سری رنگا پٹنم کے قلعے میں مہتاب باغ کا مورچہ بے حد اہم تھا جہاں سلطان کا نہایت وفادار اور بہادر افسر سیدغفا راپنے جانثاروں کے ساتھ تعینات تھا۔ یہ یقین کے ساتھ سمجھا جاتا تھا کہ سید غفارجیسے سپہ سالار کی موجودگی میں انگریز فوجوں کی کامیابی ممکن نہیں ہے، اس لیے سلطان کے نمک حرام وزیرمیر صادق اور اس کے سازشی ساتھیوں نے سید غفار کو کسی طرح وہاں سے ہٹوا کر قتل کرادیااور غدار سپاہیوں نے مہتاب باغ کا دروازہ کھول دیا۔ انگریزی فوج قلعے میں داخل ہوگئی۔ وہ دوپہر کا وقت تھا۔ سلطان خاصہ تناول کرنے بیٹھا تھا، ابھی پہلا لقمہ اٹھایا ہی تھا کہ اس کو سید غفار کی شہادت اور قلعے کا دروازہ کھلنے کی خبر ملی۔ سلطان شہادت کی راہ پر آگے بڑھنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، اس کے وفادار سپاہی ساتھ تھے۔ سلطان نے ہتھیار سنبھالے، گھوڑے پر سوار ہو اور دوسرے دروازے سے باہر نکل کر انگریز حملہ آوروں کے لشکر جرار سے جا بھڑا۔ سلطان نے بڑی دلیری کے ساتھ جنگ کی اور دشمنوں کی لاشوں کے ڈھیر لگادیے۔ چونکہ انگریزی سپاہ کی تعدادبہت زیادہ تھی اس لیے اس نے پیچھے ہٹ کر قلعے میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن نمک حرام میر صادق نے وہ دروازہ ہی بند کرادیا جس سے سلطان باہر نکلاتھا۔ اب زندگی اور موت کے فیصلے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ شیر نے پلٹ کر ظالم انگریزوں پر حملہ کیا،وہ دوپہر سے مسلسل لڑرہاتھا، زخمی بھی ہوچکاتھا، اسے کئی گولیاں لگ چکی تھیں،اب دن ڈھل رہاتھا، سلطان پیاس سے بے حال تھا، اس نے اپنے خادم راجہ خان سے پانی مانگا، لیکن وہ کمبخت بھی غداروں کے ساتھ مل چکاتھا، اس کے پاس مشکیزے میں پانی تھا لیکن اس نے اسی طرح شقاوت کا مظاہرہ کیا جیسے حضرت امام حسینؓ کے ساتھ یزیدیوں نے کربلا کے میدان میں کیاتھا۔ تبھی دشمن کی ایک گولی سلطان کا سینہ چیر گئی، زخمی شیر زمین پر گرگیا لیکن وہ شیر دل اس حالت میں بھی جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اس کی تلوار اب بھی ہاتھ میں تھی، خون میں نہاتے ہوئے اس زخمی مجاہد نے جھپٹ کر حملہ کیا اور کئی انگریزوں کو جہنم رسید کردیا۔ دشمنوں نے اس پر گولیوں کی بوچھارکردی، ایک گولی کپنٹی پر لگی اور آزادیِ وطن کا یہ جانباز مجاہد شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگیا۔ ملک کو آزاد کرانے والی تلوار گم ہوگئی جیسا کہ ایک شاعر نے ’شمشیر گم شد‘کے الفاظ سے شہادت کی تاریخ کے اعداد برآمد کیے ہیں۔
غدار میرصادق کا انجام یہ ہواکہ سلطان کی شہادت سے قبل وہ ایک کھڑکی سے باہر نکل جانا چاہتاتھا کہ سلطان کے ایک وفادار دل سوختہ سپاہی نے اس سے کہا، ’’مردوداپنے آقا کو پھنسوا کر کہاں جاتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر تلوار سے اس کا کام تمام کردیا۔
ٹیپو سلطان کی شہادت انگریزوں کے لیے سب سے بڑی کامیابی تھی، ٹیپو سلطان کی شہادت کی خبر پاکر جنرل ہارس نے بے حد معنی خیز نعرہ لگایاتھا۔ ’’اب ہندوستان ہماراہے۔‘‘
میسور کی آبادی اکثریت میں ہندو تھی۔ ہندوؤں کے ساتھ ٹیپو سلطان کے دوراقتدار میں کہیں بھی نازیبا اور غیر منصفانہ برتاؤ کیاگیاہو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا،اس کے برعکس اپنی ہندو رعایا کے ساتھ اس کے محبت آمیز رویے کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ ٹیپو سلطان کے دربار میں آخر تک اعلیٰ ترین عہدے ہندوؤں کو ملے ہوئے تھے، پورنیہ پنڈت ٹیپو کا وزیر اعظم تھا، کرشن راؤ بھی وزیر تھا۔ ان دونوں کا دربار میں بے حد اثر اور دبدبہ قائم تھا۔ ٹیپو کے دربار میں سفارتوں اور نقیبوں کا کام کرنے کے لیے بہت سے برہمن مقرر تھے۔ دربار میں پجاریوں اور جیوتشیوں کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ شرنگیری مٹھ کے شنکر اچاریہ سوامی سچد انند شاستری سے ٹیپو کو خاص عقیدت تھی، شنکر اچاریہ کے نام اس کے 30سے زائد خطوط موجود ہیں جن سے ٹیپو سلطان کی آچاریہ سے دوستی اور محبت کا پتہ چلتاہے۔ ٹیپو سلطان راسخ العقیدہ مسلمان تھا لیکن اپنی قلمرو میں اس نے متعدد مندروں کو بڑی بڑی جاگیریں دیں جن میں ننجم گڈا، سری رنگا پٹنم اور میلکوٹ کے مندر شامل ہیں بنگلور میں ٹیپو سلطان کے زنانہ محل کے عین سامنے سری وینکٹ رامن کا مندر اور محلات بالکل ملے ہوئے ہیںیہ مشہور اورقدیم منادر سلطان کی مذہبی رواداری کے شاہد ہیں۔
شہید وطن ٹیپو سلطان نے اپنی سلطنت میں عدل ومساوات کا پرچم بلند کیا۔ جاگیر داری کا خاتمہ کیا اور ملک کواقتصادی طور پر اس طرح خوشحال کردیا کہ وہ دنیا کا عظیم مدبر حکمراں بن گیا۔ ٹیپو سلطان کی حکومت کے بارے میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے لکھاتھا۔’’ میسور ہندوستان میں سب سے زیادہ سرسبز علاقہ ہے۔ یہاں ٹیپو کی حکمرانی ہے، میسور کے باشندے ہندوستان میں سب سے زیادہ خوشحال ہیں۔
سلطان ٹیپو نے رعایا کی بہبودی کے لیے بینک کھولے جس سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو زیادہ منافع ملتاتھا۔بینکوں کے ماتحت ضروریات زندگی کی دکانیں کھولی گئی تھیں، ٹیپو سلطان نے تجارت کے فروغ کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا۔ ریاست میں پولس کا معقول بندوبست تھا۔ جس افسر کے علاقے میں کوئی واردات ہوتی اس کا ذمہ دار وہ پولس افسر ہوتاتھا اگر وہ ملزم کا سراغ نہ لگاسکتاتو تاوان کا ذمہ دار قرار پاتاتھا۔سلطان نے ہندوستان میں پہلی بار بحری فوج قائم کرنے کی کوشش کی اور حربی آلات بنانے کے شاندار کارخانے قائم کیے، جنگ میں راکٹ استعمال کرنے کا تصور سلطان نے سب سے پہلے پیش کیا۔
ہندوستان کی تاریخِ آزادی قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہر مذہب وملت کے مجاہدین نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں لیکن شہیدِ وطن ٹیپو سلطان جیسا لائق حکمراں اور سرفروش مجاہد آزادی کسی اور ہندوستانی قوم نے آج تک پیدا نہیں کیا۔
No comments:
Post a Comment