मुहम्मद उमर कैरानवी: مسلمانوں کے حالات اور ماضی کی بازیافت

Friday, July 10, 2020

مسلمانوں کے حالات اور ماضی کی بازیافت


مسلمانوں کے حالات اور ماضی کی بازیافت 
نکتہ
تمہارا مضمون عبدالحمید انصاری (یکتا یکتا 024) پر ماضی کی بازیافت اور مسلمانوں میں حالات کے تحت کبھی ابھرنا کبھی ڈوبنا کی تفسیر پڑھی۔ ایک بات بتاؤ کہ خلافت راشدہ کے بعد عہد سپین و بغداد کو چھوڑ کر مسلمان علمی ترقی، سیاسی سوجھ بوجھ، معاشرتی اصلاح، انفرادی غور و فکر، اجتماعی عمل سے دور دور کیوں رہا؟ انسان کی شخصیت وہ اوصاف پیدا کرے کہ دوسروں کے لئے اس کا علم، عمل، فکری بلندی اور ذات ناگزیر بن جائے۔ جب ایسا نہیں ہوگا تب انسان ہو یا کوئی گروہ وہ خس و خاشاک کی طرح ہوجاتا ہے: یعنی روندے جانے کے لئے۔میں اس معاملہ میں بہت سوچتی ہوں مگر سب سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ کونسی رکاوٹ ہے جو ہم راہ میں رکے ہوئے ہیں؟ کس بات کا انتظار ہے؟ علی گڑھ آکر ایک بات محسوس ہوئی کہ سر سیدتو پیدا ہوتے ہیں مگر ان کو وہ شیروانی خاندان بھی ملنا ضروری ہے جو اپنا تن من دھن لے کر آجاتا ہے۔ تم نے صحیح لکھا ہے کہ عبدالحمید انصاری کے ساتھ ڈاکٹر عبدالحق اور قاسم بھائی بھی ضروری ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کو بھی کون تلاش کرے؟ میرا سوال اپنی جگہ ہے۔ اس کا بھی جواب دو۔۔۔۔
شہناز غا زی
ایک نجی خط کا قتباس ، 25 اکتوبر 2009

گفتہ
مدت ہوئی جب میری عزیز بہن شہنازنے ایک خط میں یہ سوالات کئے تھے۔ میں نے جواباً اس موضوع پر کچھ لکھنے کا وعدہ بھی کیا تھا مگر اس کے بعد نکتگو اور یکتا یکتا دونوں ہی سلسلے موقوف ہوگئے تھے اور میرا تمام تر فارغ وقت لفظ نما کی تحقیق میں صرف ہونے لگا تھا۔ سو یہ وعدہ بھی بہت سے دیگر وعدوں کی طرح تشنۂ تکمیل رہ گیا ۔ اب یہ سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ کیا اور پرانے کاغذات پر نظر دوڑائی تو ان میں سے شہناز کے سوال کو اس نئے سلسلہ کا نقطہ آغاز بنانے کا فیصلہ کیا۔
میں نے نکتگو کے گزشتہ 41 مضامین میں سب سے زیادہ مضامین ارتقا اور زوال ہی کے موضوع پرلکھے تھے۔ اس کے علاوہ زندگی کے چالیس طویل صحافتی برسوں میں بھی میرے بیشتر مضامین اور مقالے راست یا بالواسطہ اسی موضوع کا احاطہ کرتے رہے ہیں ۔ پھر بھی یہ موضوع خود میری حد تک بھی تشنہ ہے۔اس کو بہت تشریح کی ضرورت ہے، ایک تو اس لئے کہ جب کسی قوم کا تاریخی شعور مفقودنہ سہی، نیم جاں ہوجائے تو سیدھی گزرگاہ بھی بے نتیجہ بحثوں کے گرد و غبارمیں چھپ جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ جب کسی قوم کا عمرانی شعور کمزور ہو جاتا ہے تو ایک ہی بات کو بار بار مختلف پیرایوں میں دہرانا پڑتا ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ کی وحدانیت اور اس کے قادر مطلق ہونے جیسی سامنے کی باتوں کوسیکڑوں آیات میں بار بار کھول کھول کر بیان کیا گیا پھر بھی انسانوں کی اکثریت کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ مگر بہت سے لوگ جو صدق دل سے سچائی کے متلاشی تھے بات پا گئے اورانہوں نے دنیا کو وہ قیادت مہیا کردی جوپہلے کبھی انسانیت کا مقدر نہ بن سکی تھی۔تیسری وجہ یہ کہ میری وہ تحریریں بہت سے لوگوں کی نظر ہی سے نہ گزریں یا بے ربطی کے ساتھ انہیں پڑھا گیا تو بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئی۔آج اسی موضوع کو ایک نئے پیرائے میں بیان کردیتا ہوں۔
مگر بات شروع کرنے سے پہلے کچھ نکات طے کرلیں۔

*کیا واقعی بغداد اور سپین کے بعد دنیا کے مسلمان علمی ترقی، سیاسی سوجھ بوجھ، معاشرتی اصلاح، انفرادی غور و فکر، اجتماعی عمل سے دور ہوگئے تھے؟
*کیا واقعی پچھلے چھ سو سال میں مسلمانوں میں ایک بھی شخصیت ایسی پیدا نہ ہوئی جس کے اوصاف،علم، عمل، فکری بلندی اور ذات دوسروں کے لئے ناگزیر نہ سہی قابل ذکر بھی ہوتی؟
*کیا مسلمان وقت کے کسی جامد لمحہ پر ٹھہرے ہوئے ہیں یا ایک ایسی حالت سفرمیں ہیں جس کی منزل دور ہے؟
*کیا کام کرنے کے لئے سرمایہ یا کسی دولت مندکی اعانت لازمی ہے؟
*کیا واقعی دنیا میں کسی ایسی قوم نے کوئی ترقی کی ہے جس کا خود پر اور اپنی صلاحیت اور استعداد پراعتماد ہی نہ ہو؟
*اگران تمام سوالات کا جواب اثبات میں ہے تو پھرنجات کا راستہ کیا ہے؟ اور اگر ان کا جواب نفی میں ہے تو پھر مسلمان اس ناگفتہ بہ حالت میں کیوں ہیں؟
پہلے پانچ سوالوں کے بارے میں کسی نتیجہ پر پہنچنے کے بعد ہی اس آخری سوال پر بات ہوسکتی ہے۔ اس لئے موجودہ مضمون پہلے پانچ سوالوں تک محدود رہے ۔
تاریخ ان محولہ بالا سوالوں کے جواب مہیا کرتی ہے ۔مگر تاریخ کوئی نرس نہیں ہوتی کہ وقت مقررہ پر دوا کی گولی اور پانی کا گلاس لے کر مریض کے پاس آئے، اسے دواکھلا دے ،اورتین دن بعد معالج اسے صحت مندی کا پروانہ عطا فرمادے۔ تاریخ میں اپنے سوالوں کے جواب ڈھونڈنے پڑتے ہیں اور اس کام میں کبھی کبھی برسوں لگ جاتے ہیں۔ تو جن اہل علم، دانشمندوں، مفکروں پر کبھی کبھی ہم غصہ ہوتے ہیں کہ ہماری مشکل کا حل نہیں بتاتے خود ان کی مشکل سے ہم باخبر نہیں ہوتے۔اور وہ ہماری شکایت کو درد مندی سن کے خاموش رہتے ہیں کہ ممکن ہے وہ خود ابھی درمیان راہ میں ہوں۔ وہ نبی نہیں ہوتے کہ اللہ کی طرف سے فورا جواب مہیا کردیا جائے۔ لیکن ان کی تربیت ایک اعتبار سے قرآن حکیم کا علم کرتا جہاں ایک آیت کی تفہیم کیلئے کئی دوسری آیتوں کی جزئیات کا علم ہونا ضروری ہوتا ہے۔
ایک مثال دیتا ہوں۔
صدیوں سے، بالخصوس گزشتہ دو صدیوں سے، مستشرقین، اور اب معربین، کا اصرار ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعدمکہ کے تجارتی قافلوں کو مدینہ کے مسلمان لوٹتے رہے اور بعض مرتبہ تو اس کام کے لئے کوئی فوجی ٹکڑی لے خود رسول ؐ اللہ بھی نکلے۔
تاریخ کیا ہے؟
تاریخ تو یہی ہے!
مکہ والوں کے تجارتی کاروان شام جانے کے لئے نکلتے تھے اور مدینہ کے مہاجرین و انصار کی چھوٹی چھوٹی فوجیں ان پر حملہ کرنے کے لئے نکلتی تھی۔
یہ تاریخ کہاں لکھی ہوئی ہے؟
دیکھ لو، ابن ہشام نے اپنی سیرۃ میں لکھا ہے۔ ابن کثیر، ابن اثیر، طبری، بلاذری، یعقوبی۔ سب نے لکھا ہے اور سب مسلمان مؤرخ تھے۔ تو بات تاریخی سچ ہے ا ور تاریخی سچ تھی۔
مگر کیا اس موضوع پر یہی آخری اور سچا سچ ہے؟
نہیں۔ یہ ادھورا سچ ہے۔ مگر اس کے ادھورے پن کو سمجھا نہ جاسکا۔ مستشرقین کی بات چھوڑئے، انہیں تو سفیدشکر میں کالی چیونٹیاں ہی نظر آتی تھیں، خود مسلمان بھی اس معاملہ دفاعی ہو گئے۔بات دفاع طلب نہیں، وضاحت طلب تھی۔
سیرت مبارکہ پرمیرے آٹھویں لیکچر میں13 اپریل 2008 کو یہ تاریخی واقعیت بیان میں آئی تو اس مسئلہ پر کچھ حاضرین نے سوال کئے۔ہنگامی طور پر جواب تو دے دیا مگر اس کے بعد سوا دو سال اس موضوع پرمطالعہ اور غور و فکر کر کے چار صفحات پر مشتمل ایک مضمون اسلام آباد کے سہ ماہی الاقربا کے جولائی تا ستمبر 2010 کے شمارہ میں شائع کیا، جس میں مزید تحقیقی اضافے کر کے ہندستان کے ایک علمی رسالہ کو بھیجا ہے جہاں سے ابھی کوئی جواب نہیں آیا۔
مجھے اس خود ستائی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
یہ بتانے کے لئے کہ میری اس تحقیق کے نتیجہ میں تاریخی حقائق تو وہی رہے جو ابن سعد، ابن اسحق، ابن ہشام، ابن کثیر، بلاذری، طبری، وغیرہ نے لکھے ہیں لیکن انہی تاریخی حقائق سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ قریشی قافلوں پر مسلمانوں کی فوج کشی کے یہ واقعات لوٹ مارکے لئے نہیں تھے۔ وہ کیا تھے اس کے لئے الاقربا میں میرا مضمون دیکھا جاسکتا ہے؛ جو انٹر نیٹ پر گوگل کی مدد سے مل جاتا ہے۔
قصہ مختصر ،کسی ایک تاریخی حقیقت کو بہت سے دیگر تاریخی حقائق کے ساتھ مربوط کرکے ہی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔محض وقائع نگاری کی بنیاد پر کسی عہد یا کسی شخصیت کے بارے میں حتمی فیصلے نہیں کئے جاتے۔مستشرقین نے یہی کیا ، یہی جدید اصول تاریخ نویسی ہے۔
یہ اصول شہناز غازی سلمہا کے سوالات پر بھی منطبق ہوتا ہے۔
ہم اپنی جس تاریخ کی بات کررہے ہیں وہ یورپ کے معاشرتی مزاج اور علمی مذاق کی طرح بہت پیچیدہ ہے۔تاریخ کی پیچیدگی کااحساس مجھے اس وقت ہوا تھا جب علی گڑھ میں جدید مسلم دنیا کے پرچہ میں ترکی کی زوال آمادہ سلطنت عثمانیہ کے نام پر مجھے یورپ کی تاریخ پر نظر ڈالنے کا موقعہ ملا تھا۔اسی تاریخ کے گہرے اثرات نے عصر حاضر کے مسلمان کی تاریخ ہی نہیں اس کے مزاج اور شعورکو بھی پیچیدہ کردیا ہے۔ اس لئے بہت سی باتیں ہم سمجھ نہیں پاتے۔ ہر ایک بات میں اتنے گوشے، اتنے پہلو تراش لئے جاتے ہیں اور ہر گوشہ اور پہلو پر لفظوں اور نظریات کی آراستگی کے اتنے پھول پھندنے اور ان پر دلائل کے اتنے خول ہوتے ہیں کہ عموما حقیقت کی گری ہاتھ ہی نہیں آتی اور ہم اپنے حالات اور اپنے ماضی کا مطالعہ کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ پریشان خیال ، بلکہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تو مختصراً ان سوالوں کے جواب کھوجیں جو اوپر لکھے تھے۔
* کیا واقعی بغداد اور سپین کے بعد دنیا کے مسلمان علمی ترقی، سیاسی سوجھ بوجھ، معاشرتی اصلاح، انفرادی غور و فکر، اجتماعی عمل سے دور ہوگئے تھے؟
نہیں۔ یہ بیان درست نہیں ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی زیر تحریر تاریخ کا دوسرا باب لکھنے کے بعد اس کے افتتاحیہ میں ایک اہم ابتکاری نکتہ سامنے آیا تھا۔ اسے نقل کردیتا ہوں:
"اسلام کی 1443 سالہ تاریخ میں زوال کا کوئی دور نہیں ہے۔ اس کا ہر دور عروج کا دور رہا ہے۔ اسلام کی تاریخ موجوں کی صورت میں ظہور کرتی آرہی ہے۔ اس کا آغاز علم کی ایک عظیم الشان موج کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور ہجرت میں رونما ہوا۔ خلافت راشدہ اور پھر بنی امیہ کے زمانہ میں یہ تاریخ دو موجوں کی شکل میں مرتب ہوتی ہے: ایک طرف وہی علمی موج تھی جس کا عنوان تحریر مصحف مقدس اور تدوین حدیث کا سرآغاز تھا، بعد میں کتب حدیث کی ترتیب اور فقہوں کے ارتقا کی صورت میں سامنے آیا؛ اور دوسری موج اقدامی اور دفاعی تھی جو عہد صدیقیؓ میں مرتدین کے خلاف فوج کشی سے شروع ہوکر بنی امیہ کے زمانہ میں افریقہ، ہسپانیہ، ہند اور ماورا ء النہر کی فتوحات کی صورت میں وجود میں آئی۔ بنی عباس کے ابتدائی دور میں حربی موج کمزور پڑ گئی، مگر ٹھیک اسی زمانہ میں علمی موج کا ارتفاع آسمان دانش و حکمت تک پہنچ گیا۔ عباسیوں کے آخری دور میں یہ علمی موج بھی رفتہ رفتہ اتر گئی ، مگر دوسری طرف حربی اور تہذیبی موج بر صغیر جنوبی ایشیامیں بلند ہوتی دکھائی دی۔ منگول طوفان کے بعد ایک نئی زبردست حربی موج ایک بار پھر تاریخ اسلام کے سمندر میں اناطولیہ کے ساحلوں پرنمودار ہوئی اور مسلم توسیع کی حدیں یورپ کے قلب میں وئینا کی دیواروں سے ذراپرے رہ گئیں۔ پھر وقت آیا کہ ترک عثمانیوں کی یہ حربی موج بھی بیٹھ گئی۔ اب مسلمان حربی اور سیاسی اعتبار سے کوئی آبرومند قوم نہیں رہے۔ مگر اسی حربی اور سیاسی زوال کے زمانہ میں علمی موج از سر نو بلند ہونی شروع ہوئی اور بے شمار صف اول کے مفکرین اور اہل دانش سے آسمان جگمگا اٹھا۔لہٰذا دیکھنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ سیاسی اورحربی دور انحطاط کے باوجود دوبارہ علمی موج مسلمانوں میں کہاں ابھر رہی ہے۔ اسی سوال کے جواب پر مسلم مستقبل اور اس کے ارتقائی رخ کا انحصار ہے۔” (اسلامی تاریخ کے مد و جزر،سہ ماہی الاقربا، اسلام آباد، اکتوبر۔دسمبر 2010، ص 11۔10)
یہ ضرور ہے کہ سقوط بغداد(1258) اور سقوط غرناطہ(1492) کے بعداکثر مسلم منطقوں میں سیاسی انحطاط کا آغاز ہوا تھا جس کے نتیجہ میں ایشیا اور شمالی افریقہ میں استعماری طاقتوں کو اقتدار حاصل کرنے میں آسانی ہوئی تھی۔لیکن دوسری طرف انہی دنوں اناطولیہ اور مشرقی یورپ میں سلطنت عثمانیہ کے پرچم تلے مسلم سیاست بڑی قوت سے دنیا پر مؤثر ہورہی تھی اور ان علاقوں میں مغربی یورپی استعمار کو قدم ٹکانے کی جگہ نہیں مل رہی تھی، تاآنکہ پہلی عالمی جنگ میں عربوں کو ایک عظیم سلطنت کے سبز باغ دکھا کر ان کے ذریعہ سلطنت عثمانیہ کو ختم کیا گیا اور مشرقی یورپ پر سیاسی عنوان سے عیسائی مذہبی غلبہ حاصل کیا گیا۔ چنانچہ تقریبا آٹھ عشروں تک جمہوریہ ترکی میں بھی مسلم سیاسی زوال کا کھیل کھیلا جاتا رہا۔
جس بات کو ہم اپنے زوال سے تعبیر کرتے ہیں وہ دراصل سیاسی عمل کا بانجھ پن ہے، انحطاط بلکہ جمود اسی میدان میں پایا جاتا ہے ۔ البتہ جب سیاسی طور پر مسلمان ناکام نظر آرہے تھے،تو فکری میدان میں وہ زندگی کا ثبوت فراہم کررہے تھے۔ اس ثبوت کو غیر مؤثر کرنے کے لئے خود ہمارے مغرب مزاج تعلیمیہ اور ابلاغیہ نے بھی شور مچا دیا کہ مسلمانوں کا زوال مکمل ہوچکا ہے اور بظاہر ان کے دوبارہ ابھرنے اور ترقی کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور اگر ہے تو صرف مغربی کلچر، مغربی علوم اور مغربی طرز فکر کی نقالی ہی سے ممکن ہے۔اسی شور شرابہ میں گزشتہ دوسوسال میں پوری مسلم دنیا میں ایسے کئی مصلحین پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی قوموں کو یہ سبق پڑھایا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بیسویں صدی کے اواخر میں مسلم دنیا کے انتہائی مشرق اور انتہائی مغرب میں کم و بیش ایک ہی وقت میں اس نظریہ کو رد کرکے خود اعتمادی کا مظاہرہ شروع ہوا۔ مشرق میں اس قوت کا نام محاتیر محمد اور اس کا میدان عمل ملیشیا بنا،مغرب میں خوداعتماد کا نام تھا نجم الدین اربکان، پھر سلیمان دیمرل کے شاگرد ترگت اوزال اور پھر اربکان کے سیاسی تلامیذ رجب طیب اردگان اور عبداللہ گل اورمیدان کار ترکی۔ تاہم ان دو "قطبوں "کے درمیان پڑنے والی مسلم دنیا اور عام مسلمان بدستور اسی بدگمانی میں ہیں کہ اگر کسی بھی درجہ میں ترقی کا کوئی امکان ہے تو صرف مغربی طرز فکر کی نقل میں ہے۔ ان لوگوں کی نگاہیں تاریخ کی کتابیں اور اخبارات پڑھنے کے قابل نہیں ہیں۔
مسلمانوں کے معاملہ میں قدرت کا عجیب نظام ہے۔ ان کے سیاسی انحطاط و زوال کے ساتھ ہی ان میں زبردست علمی اور فکری انقلابات آتے ہیں۔ ہسپانیہ میں بنی امیہ کی حکومت (1039۔756) کے دوران علمی کام ہورہاتھا جس کی حیثیت بالعموم فلسفیانہ تحقیقات کی تھی۔ الحکم ثانی(976۔915)کے ذاتی کتب خانہ میں چار لاکھ سے چھ لاکھ تک کتابیں موجود تھیں ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب چھپائی کی مشین ایجاد نہیں ہو ئی تھی۔ بنی امیہ کے خاتمہ کے ساتھ مسلم ہسپانیہ چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ طوائف الملوکی کا یہ دور 453 برس پر محیط تھا۔ اسی زمانہ میں بے شمار مسلم نظری اوراطلاقی سائنسداں پیدا ہوئے (عباس ابن فرناس،ابوالقاسم الزہراوی،ابن رشد، ابن الطفیل، ابن باجہ،ابن حزم، البطروجی،محی الدین المغربی،ابن زُہر، ابن جبیروغیرہ)جن کی تحقیقات اور ایجادات بعد میں یورپ کی سائنسی اور تکنولوجیائی ترقی کا ذریعہ بنیں۔ اس سے پہلے سلطنت عباسیہ کے اپنے عروج کے دور میں مامون جیسے فلسفی مزاج بادشاہ کی توجہ سے فکر اورنظری علوم میں تو بے شک غیر معمولی ترقی ہو ئی، نیز کسی درجہ میں اطلاقی علوم میں بھی اہم کام ہوا، لیکن اس خاندان کے دسویں حکمراں المتوکل کے دور حکومت (861۔847)کے بعدزمانۂ انحطاط شروع ہوا اور اسی دورمیں مسلم مشرق میں امتیازی علمی ترقی ہوئی (الزرکلی، الجزری، قطب الدین شیرازی، ابن شاطر، الکاشی، ابن النفیس،ابن تیمیہ، المقریزی، الادریسی، الغزالی، الرازی وغیرہ)۔ بر صغیر جنوبی ایشیا میں دہلی سلطنت (1207 تا 1526) اور سلطنت مغلیہ کے عروج (1556 میں اکبر کی تخت نشینی سے1707 میں اورنگزیب کے انتقال تک) اگرچہ علوم کے میدان میں کام ہوتا رہا اورشیخ عبدالحق محدث دہلوی،خان خاناں، شیخ احمد سرہندی اور استاد عیسیٰ جیسے اہل علم و فن پیدا ہوئے، لیکن اورنگزیب کے انتقال کے ساتھ سیاسی زوال شروع ہوا اور اس کے نتیجہ میں جو علمی انقلاب آیا تھا وہ برصغیر میںآج تک جاری ہے اور اس کی ضیاؤں سے نگاہیں آج بھی خیرہ ہوتی ہیں۔
بے شک مسلمانوں میں سیاسی سوجھ بوجھ کا فقدان سب کے سامنے ہے۔مگر اس کا سبب سوائے اس کے کیا ہے کہ مسلمانوں کی خود اعتمادی کو خود ہم نے ادھ موا کر رکھاہے۔ مسلمان غیر مؤثر ہے اس لئے کہ اس کے سامنے کوئی سیاسی نصب العین نہیں ہے۔ان کے حکمراں یا تو مغرب کے دسترخوان فکر کے ریزہ چیں ہیں یا غلام قصر ہیں۔تاہم معاشرتی اصلاح کے میدان میں خاصا مؤثر کام ہورہاہے جو انفرادی غور و فکر اور کسی درجہ میں اجتماعی عمل کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ان میدانوں میں بڑا مسئلہ قوتِ نافذہ کا ہے جو کسی بھی مفکراور کارکن کے پاس نہیں ہوتی۔ یہ قوت جن ہاتھوں میں ہے انہیں سیاست داں کہتے ہیں اور ان کو ایسے کاموں سے اب اتنی نسبت بھی نہیں رہی جتنی ہارون رشید اور مامون رشید کو تھی کہ وہ اپنے زمانہ کے علماء کو بلا کر ان سے بات تو کرتے تھے اور اکثر ان کی بات مان بھی لیتے تھے۔ اب اسی طبقۂ اہل علم کوسب سے زیادہ خطرناک سمجھاجاتا ہے۔اس میں کچھ قصور خود علماء بھی ہے، مگراس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس پورے طبقہ ہی کولعن طعن کا شکار بنا دیا جائے اور ان میں مثبت فکر و عمل والے افرادکو نہ تلاش کیا جائے نہ ان سے استفادہ کیا جائے۔
** کیا واقعی پچھلے چھ سو سال میں (1400 سے اب تک) مسلمانوں میں ایک بھی شخصیت ایسی پیدا نہ ہوئی جس کے اوصاف،علم، عمل، فکری بلندی اور ذات دوسروں کے لئے ناگزیر نہ سہی قابل ذکر بھی ہوتی؟

جی ہاں، 1400 عیسوی سے اب تک کی چھ سو سالہ مدت میں ایسی بے شمار شخصیات پیدا ہوئی ہیں: چند کے نام گنے جائیں:
علوم دین و دنیا: (78)
ابن خلدون(1406۔1332)۔
پیری رئیس (ترکی ۔ جغرافیہ داں امیر البحر: ۔ 1513)۔
قاضی زادہ رومی (ترکی۔فلکیاتی : 1436۔1364)۔
مرزا محمد طارق اُلُغ بیگ (فارس ۔ مہندس، فلکیاتی : 1449۔1394)۔
مولانا جلال الدین سیوطی (مصر۔ عالم، مفسر،فقیہ، اقتصادیات : 1505۔)
تقی الدین ابن معروف السعدی (ترکی/شام۔سائنسداں، فلکیاتی، موجد، مہندس،گھڑی ساز: 1585۔1526)۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی (ہند۔عالم، محدث: 1642۔1551)۔
ملا علی قاری (محدث، فقیہ: م:1605)۔
احمد بابا المصوفی ٹمبکٹی (ٹمبکٹو : مالی ،مغربی افریقہ ۔ عالم ، انقلابی : 1627۔1556)۔
اولیا ء چلبی (عثمانی ترکی۔ سیاح، جغرافیہ داں: 1682۔1611)۔
مرزا مظہر جان جاناں(ہند ۔ عالم، تصوف : 1781۔1701)۔
شاہ ولی اللہ(ہند۔مفکر عالم، ماہر عمرانیات، سیاسی فلسفی، اقتصادیات: 1762۔1703)۔
شاہ عبدالقادر۔(ہند۔عالم، محدث، مترجم قرآن: م:1815)۔
شاہ عبد العزیز(ہند۔محدث، محقق:1824۔1745)۔
امام محمد امین ابن عابدین (شام ۔ محدث،فقیہ، اقتصادیات: 1836۔1783)۔
علامہ محمود آلوسی بغدادی (عراق۔عالم، مفسر، فلسفئ سیاسیات: 1853۔1802)۔
مولانا خالد کردی( کردستان/عربیہ /عراق۔ تصوف،حدیث :م:1827)۔
شاہ اسمٰعیل شہید(ہند۔ محقق : ش: 1831)۔
مولانارشیداحمدگنگوہی(ہند۔عالم، محدث:1905۔1829)۔
مولانا محمد قاسم نانوتوی(ہند۔عالم، محقق، مفکر، انقلابی : 1880۔1832)۔
مصطفی عاصم کوکسال (ترکی۔مؤرخ/محقق: 1913۔1898)۔
شبلی نعمانی(ہند۔مؤرخ، محقق: 1914۔1857)۔
شیخ الہند مولانا محمود لحسن(عالم، محدث، مترجم قرآن، محرک آزادی، مفکر، عمرانیات : 1920۔1851)۔
مولاناخلیل احمدسہارنپوری(ہند: عالم،محدث: 1927۔1852)۔
علامہ سید انور شاہ کاشمیری (ہند۔عالم، محدث، مفکر، فقیہ : 1933۔1875)۔
مولانا اشرف علی تھانوی (عالم، محقق، مفسر، فقیہ : 1943۔1863)۔
احمد ابن امین الشنقیطی (موریطانیہ ۔ تاریخ، جغرافیہ، ادب : 1913۔1872)۔
مارماڈیوک محمد پکتھال (انگلستان۔ مدرس،مترجم قرآن : 1936۔1875)۔
مولانا شبیر احمد عثمانی(ہند۔پاکستان۔عالم، محدث، مفسر : 1949۔1886)۔
مولانا احمد علی لاہوری (ہند/پاکستان ۔عالم، مفسر، مفکر: 1961۔1887)۔
سید سلیمان ندوی (ہند۔پاکستان ۔عالم، مؤرخ، محقق: 1953۔1884)۔
مولانا محمد الیاس کاندھلوی (ہند۔عالم، مبلغ دین : 1944۔1885)۔
محمد حسین ہیکل (مصر۔صحافی/سیرۃ نگار: 1956۔1888)۔
مولانا ابولکلام آزاد(ہند۔محقق، مفکر، مجاہد آزادی: 1958۔1888)
شیخ بدیع الزماں سعید نورسی (ترکی۔عالم، مصلح: 1960۔1878)۔
امام محمد زاہد الکوثری (ترکی/مصر/شام ۔فقیہ، محدث : 1951۔1879)۔
محمدفواد کوپرولو (ترکی۔مؤرخ: 1966۔1890)۔
مفتی امین الحسینی (فلسطین ۔ عالم، فقیہ، محرک آزادی : 1974۔1895)۔
حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب (ہند۔عالم ، محقق،مفکر،خطیب: 1983۔1897)۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی (ہند/پاکستان ۔ سائنسداں : 1994۔1897)۔
شیخ محمد ابو زہرہ (مصر۔عالم، مفکر، فقیہ: 1974۔1898)
محمد اسد (لیوپولڈ ویس) (آسٹریا/ہسپانیہ۔مفسر، صحافی: 1992۔1900)۔
مولانا محمد یوسف بنوری(پاکستان۔عالم، محدث : م: 1977۔)۔
ڈاکٹر قدرت خدا (بنگلہ دیش۔سائنسداں: 1977۔1900)۔
خلیل اِنالجک (ترکی۔مؤرخ : ۔1905)۔
مولاناحامد الانصاری غازی(ہند۔صحافی، مفکر،محقق، مجاہد آزادی: 1992۔1907)۔
ڈاکٹرمحمدحمیداللہ (حیدرآباد/فرانس۔عالم،مؤرخ، محقق: 2002۔1908)۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی (پاکستان ۔ سائنسداں : 1998۔1908)۔
ابوبکر سراج الدین مارٹن لنگس (کینڈا۔عالم، صوفی،سیرت نگار، محقق: 2005۔1909)۔
شیخ عبداللہ الغمری (مراکش۔عالم، محدث، فقیہ ،صوفی۔1910)۔
عائشہ بنت عبدالرحمٰن۔بنت الشاطی( مصر۔عالمہ،مفسر، ادیبہ: 1999۔1913)۔
ڈاکٹر تھامس بیلنٹائن (ٹی۔بی۔) اِروِنگ(امریکہ۔ مترجم قرآن، ماہر لسانیات، مدرس: 2002۔1914)۔
زینب الغزالی (مصر۔عالمہ، ادیبہ : 2005۔1917)۔
محمد الغزالی (مصر۔عالم، محقق: 1996۔1917)۔
اسمٰعیل راجی الفاروقی شہید (امریکہ۔محقق: 1986۔1921)۔
ڈاکٹر مصطفیٰ محمود (مصر ۔ سائنسداں : 2009۔1921)۔
مولانا سعید احمد اکبرآبادی(ہند۔عالم، محقق، مدرس)۔
شیخ انطا ضیوف (سینیگال ۔ مؤرخ، سائنسداں : 1986۔1923)۔
ڈاکٹر سید صمد حسین (پاکستان۔ فلکیاتی، طبیعیاتی: ۔1924)۔
خلیق احمد نظامی(ہند۔مؤرخ، محقق: ۔1925)۔
ڈاکٹر منیر احمد خان (پاکستان ۔ نیوکلیائی سائنسداں : ۔1926)۔
ڈاکٹرسید ظہور قاسم (ہند ۔ سائنسداں : ۔1926)۔
ڈاکٹرعرفان حبیب(ہند۔مؤرخ، محقق: ۔1931)۔
ڈاکٹراے۔پی۔جے۔عبدالکلام (ہند۔ سائنسداں: ۔1931)۔
ڈاکٹرعبید الرحمٰن صدیقی(ہند۔سائنسداں: ۔1932)۔
شیخ حسن الترابی (سودان ۔ عالم ، سیاست داں : ۔1932)۔
ڈاکٹر علی شریعتی (ایران:ماہر عمرانیات، انقلابی: 1977۔1933)۔
سید حسین نصر (ایران/امریکہ۔اسلامی فلسفہ : ۔1933)
ڈاکٹرعبدالقدیر خان (پاکستان۔سائنسداں: ۔1936)۔
محمد یونس (بنگلہ دیش ۔ اقتصادیات، رفاہیات عامہ : ۔1940)۔
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی (پاکستان۔عالم، قانون داں، مدرس، محقق: ۔1943)۔
ڈاکٹر اصغر قادر (پاکستان، فلکیاتی: ۔1946)۔
عائشہ (عبدالرحمٰن ترجمانہ) بیولی (امریکہ۔تصوف، عالمہ، محقق: ۔1948)۔
ڈاکٹر شیر علی (ہند۔سائنسداں: ۔1955)۔
مفتی زَروَلی خان (پاکستان ۔ عالم، مفسر، محدث : ۔1955)۔
عدنان اوکتارعرف ہارون یحی (ترکی ۔ سائنس داں : ۔1956)۔
یوسف زیدان (مصر ۔ اسلامیات، آثار قدیمہ، محقق : ۔1958)۔
شیخ حمزہ یوسف ہانسن (امریکہ۔عالم، تصوف،مدرس، محقق: ۔1960)۔

سیاست: (41)
مرزا محمد طارق اُلُغ بیگ (فارس ۔ بادشاہ، مہندس، فلکیاتی : 1449۔1394)۔
سلطان محمد فاتح(عثمانیہ ترکی : 1481۔1432)۔
سلطان سلیمان قانونی(عثمانیہ ترکی: ح: 1566۔1520)۔
سلطان سلیم ثانی (عثمانیہ ترکی: 1574۔1524)۔
ظہیر الدین بابر(ہند:1483۔1531)۔
شاہجہاں (ہند: 1666۔1592)۔
اورنگزیب عالمگیر(ہند: 1707۔1618)۔
آصف جاہ نظام الملک اول (ہند: 1758۔1671)۔
نواب بنگال مرزا محمد سراج الدولہ (ہند۔ 1757۔1728)۔
سلطان ٹیپو شہید(ہند: 1799۔1750)۔
مولانا فضل حق خیرآبادی (ہند۔عالم، انقلابی: 1861۔1791)۔
مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی(ہند۔عالم، مجاہد آزادی: پ: 1825 تقریباً)۔
امام شامل (داغستان/چیچنیا۔عالم، انقلابی: 1859۔1797)۔
امیرعبدالقادرالجزائری (الجزائر:مجاہدآزادی: 1883۔1808)۔
اعرابی پاشا (مصر۔ انقلابی: 1911۔1839)۔
سعد زغلول پاشا (مصر ۔ انقلابی، محرک آزادی : 1927۔1859)۔
سلطان عبدالحمید ثانی (عثمانیہ ترکی۔سلطان: 1909۔1876)۔
شیخ الہندمولانا محمود الحسن(ہند: عالم ، محدث،مفسر، مفکر،محرک آزادی: 1920۔1851)۔
شیخ احمد سنوسی (لبیا۔صوفی، مجاہدآزادی)۔
محمد علی جوہر (ہند۔صحافی، مدبر: 1931۔1878)۔
عمر مختار شہید (لبیا۔عالم، مدرس، مجاہد آزادی: 1931۔1862)۔
امیر شکیب ارسلان (لبنان ۔ادیب، سیاست داں: 1946۔1869)۔
انور پاشا (عثمانی ترکی : 1922۔1881)
جلال بایار (ترکی۔ انقلابی : 1986۔1883)۔
محمد ابن عبدالکریم الخطابی ( مراکش۔ انقلابی، مجاہد آزادی : 1963۔1883)
مولانامحمد میاں منصور انصاری(ہند/افغانستان۔عالم، مفکر،انقلابی : 1949۔1886)۔
مولاناابولکلام آزاد(ہند۔محقق، مجاہد آزادی: 1958۔1888)۔
امیرامان اللہ خان (افغانستان:1960۔1892)۔
رفیع احمد قدوائی (ہند ۔ 1954۔1894)۔
مفتی امین الحسینی (فلسطین ۔ عالم، فقیہ، محرک آزادی : 1974۔1895)۔
عدنان مندریس (ترکی ۔ انقلابی : 1961۔1899)۔
مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی(ہند۔عالم، محقق،مجاہد آزادی)۔
کنعان ایورن (ترکی : ۔ 1917)۔
جمال عبدالناصر(مصر: 1970۔1918)۔
جنرل ضیاء الحق (پاکستان ۔ صدر: 1988۔1924)۔
نجم الدین اربکان (ترکی۔ انجنئر، پروفیسر،سیاست داں : ۔1926)۔
علیہ عزت بیگووِچ (بوسنیا۔انقلابی، صدر: 2003۔1925)۔
محاتیر محمد(ملیشیا۔طبیب، سیاست داں: ۔1925)۔
تُرگُت اوزال (ترکی : 1993۔1927)۔
رجب طیب اِردُگان (ترکی : ۔1954)۔
عبداللہ گل(ترکی : ۔1950)۔

ادبیات:(26)
نظیری نیشاپوری (ایران/ہند۔شاعر: م: 1412)۔
مولانا عبدالرحمٰن جامی (افغانستان۔شاعر، صوفی: 1492۔1414)۔
ملا طاہر غنی کاشمیری(ہند۔شاعر: 1664۔1630)۔
مرزا محمد رفیع سودا(ہند۔شاعر: 1781۔1713)۔
میر تقی میر(ہند۔شاعر: 1810۔1723)۔
مرزا اسداللہ خان غالب(ہند۔شاعر: 1869۔1797)۔
علامہ راشد الخیری (ہند۔ ادب نسواں : 1936۔1868)۔
احمد شوقی (مصر۔شاعر: 1932۔1869)۔
ظفر علی خان (ہند/پاکستان۔صحافی، شاعر: 1956۔1873)۔
محمداقبال(ہند۔شاعر،فلسفی : 1938۔1877)۔
امیر شکیب ارسلان (لبنان ۔ادیب،شاعر: 1946۔1869)۔
عمرابوریشہ(شام۔شاعر،سفارت کار)۔
محمد لطفی جمعہ (مصر ۔ ادیب، انشاء ، انقلابی : 1953۔1886)۔
توفیق الحکیم (مصر ۔ ناول : 1987۔1898)۔
حفیظ جالندھری (ہند۔پاکستان۔شاعر:1982۔1900)۔
شفیع الدین نیر (ہند۔ ادب اطفال : 1978۔1904)۔
عائشہ بنت عبدالرحمٰن (بنت الشاطی ۔ مصر۔مفسر، ادیبہ: 1999۔1913)۔
زینب الغزالی (مصر۔ ادیبہ : 2005۔1917)۔
ہاجرہ نازلی (ہند۔ادیبہ: 2004۔1920)۔
محمد دیب (الجزائر ۔ کہانی، عصری تاریخ، بچوں کا ادب : 2003۔1920)۔
قرۃ العین حیدر (ہند۔ادیبہ: 2009۔1926)۔
احمدو کوروما(ساحل العاج،مغربی افریقہ ۔ ناول، انقلابی : 2003۔1927)۔
علی الامین مزروعی (کینیا ۔ اسلامیات، سیاسی تبصرہ، مدرس، فلسفی : ۔1933)۔
عبداللہ سدران (بوسنیا ۔ ادیب : ۔1944)۔
جمال الغیطانی (مصر ۔ صحافی، تاریخی کہانی نگار : ۔1945)۔
اسما گل حسن (امریکہ ۔ ناول، سیاسی تبصرہ، قانون : ۔1974)

یہ تقریباً ڈیڑھ سو وہ افرادہیں جنہوں نے اپنے اپنے میدانوں میں دنیا میں یا کم سے کم اپنے ملکوں اور معاشروں میں امتیاز حاصل کیاہے۔زوال کا شکارکسی قوم میں چھ سو برس میں اگر اتنے لوگ بھی مختلف میدانوں میں امتیازی مقام حاصل کرلیں تو یقین کرنا چاہیئے کہ وہ قوم اورمعاشرہ زوال پذیر نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض میدانوں میں کام سست ہو، مگر سست رفتاری کو زوال کا مترادف کبھی نہیں سمجھا گیا۔ان تین فہرستوں میں ابھی بہت کچھ اضافہ ہوسکتا ہے۔ میں نے اسے صرف ایک خاص فکری سمت میں محدود رکھاہے تاکہ تجزیہ کرنے میں سہولت ہو۔ان فہرستوں سے ایک نکتہ پر روشنی پڑتی ہے کہ گزشتہ چھ سو سال میں مسلمان فکری اور علمی میدانوں میں بے انتہا متحرک ہیں، جبکہ ادبیات میں سب سے کمزور ہیں۔ سیاست میں اٹھارویں صدی کے آغاز سے اب تک احتجاج اور مزاحمت پر قوت مرکوز ہے۔ یہ بھی بہت کمزور پہلوہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں اجتماعی عمل ہی کا فقدان ہے ۔اگر اورنگزیب کے انتقال کو خط تفریق مان لیا جائے تو حقیقت ہے کہ پچھلے تین سو برس میں عملی سیاست سے متعلق لوگوں کے پاس عموماً کوئی نظریہ اور اصول اور مقصد نہیں ہے اس لئے ان میں اتفاقاً ہی کسی شخص نے کوئی امتیازی کام کیا ہے، اور کچھ کیا بھی ہے تواس کے اثرات محدود رہے ہیں۔
** کیا مسلمان وقت کے کسی جامد لمحہ پر ٹھہرے ہوئے ہیں یا ایک ایسی سفر کی حالت میں ہیں جس کی منزل دور ہے؟
نہیں۔مسلمان کسی جامد لمحہ پر رکے ہوئے نہیں ہیں۔وہ بحیثیت مجموعی متحرک اورحالت سفر میں ہیں۔
جب ہم ریل میں سفر کرتے ہیں تو بظاہر اپنے ڈبہ میں بیٹھے ہیں اور غیر متحرک ہیں، مگراجتماعی طور پرایک متعین منزل کی سمت رواں دواں ہیں۔مسلمانوں کو بھی وقت ایک منزل کی طرف لئے بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔مسلمان ساری دنیا میں اسی کیفیت میں ہیں۔منزل پر چشم زدن میں نہیں پہنچا جاتا۔ وقت لگتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مسلمانوں کی بہت سی ٹرینوں کے ڈرائیور گاڑی چلانا نہیں جانتے اس لئے یا تو ان کی گاڑیاں ہچکولے کھا رہی ہیں یا غلط پٹری پر چلی گئیں جو منزل مقصود پر نہیں پہنچائے گی۔یہ عملی سیاست سے وابستہ لوگ ہیں جن کے سامنے کوئی مقصد ہے نہ منزل، سوائے اپنی ذات کے ۔البتہ اہل علم اور اہل فکر مسلسل منزل کی سمت اشارے کررہے ہیں۔کچھ لوگ ان اشاروں کو پاجاتے ہیں تو عارضی طور پر سمت قبلہ درست ہو جاتی ہے، مگر پھر کوئی منچلا اس سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتا ہے۔ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی اکثریت سیاسی عمل میں تسلسل اور تواتر نیز خدمت کے اصول سے غافل ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے۔
اس مسئلہ پر ایک اہم عمرانی نکتہ ہماری نگاہوں میں عموماً نہیں رہتا۔مسلمانوں کی ترقی سے یہ سمجھنا غلط ہے کہ ساری دنیا کے تمام مسلمان ایک ہی وقت میں ایک ہی معیار کی ترقی کے نتیجہ پر پہنچیں گے۔ نہیں۔ عمرانیات اور تاریخ دونوں اس کی نفی کرتی ہیں۔
عروج و زوال کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت اور انصاف کا ایک نظام ہے۔یہ نظام ساری انسانیت کا احاطہ کرتا ہے۔اللہ نے انسان کو مکرم بنایا ہے اور کفار و مشرکین تک اس کرم و شرف سے خالی نہیں ہیں اگرچہ انہیں اس کا عرفان نہیں ہے۔ چنانچہ اسی شرف کی بنا پر انسانوں کی ہر نوع کو تاریخ میں نمایاں کام کردکھانے کے موقعے دئے جاتے رہے ہیں اور دئے جاتے رہیں گے۔یہی کلیہ مسلمانوں پر بھی منطبق ہوتا ہے۔مسلمان عرب بھی ہیں، ترک بھی، ہندی بھی، ملایاوی بھی، افریقی بھی ،قفقازی بھی،اور عہد جدید میں یورپی بھی، شمالی امریکی بھی اور آسٹریلیاوی بھی۔یہ دنیا کھیل ہے تو ہر کھلاڑی کو میدان میں اپنے جوہر دکھانے کا موقعہ ملنا ضروری ہے۔ تاریخ میں عرب، ترک اور ایرانی مسلمان اپنے جوہر دکھا چکے ہیں۔تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ انصاف کرنے والے اللہ کی جانب سے نئے دور میں نئے علاقوں کے مسلمانوں کو موقعہ ملے گا۔
یہ کونسے مسلمان ہوں گے؟
میرے تجزیہ کی سوئی چارسمتوں میں اشارہ کرتی ہے۔
ہندستان۔
شمالی امریکہ۔
وسطی یورپ۔
وسطی ایشیا۔
مگر ان میں پہلے تین خطوں کو کسی قائدانہ کردار کے لئے ابھی کچھ اور انتظار کرنا ہے۔ اس کے کچھ اخلاقی اور کچھ عمرانی اسباب ہیں۔ امریکہ فی الحال عالمی فضا میں قائدانہ کردار ادا کررہا ہے۔ اس سے پہلے،تقریبا 70 سال پہلے تک، یہ کردار مغربی یورپ ادا کررہا تھا۔اسلامی عمرانی اصول کے تحت اب ان قوموں کے لئے مزید کوئی موقعہ نہیں ہے۔ مگر میرا تجزیہ عالمی کھلاڑیوں کے بارے میں نہیں ہے۔یہ محدود ہے مسلمانوں تک۔ان خطوں کے مسلمانوں نے ابھی کوئی تاریخی کردار ادا نہیں کیا۔اس کردارکی کچھ سخت شرائط ہیں۔ پہلے تین خطوں میں بڑا اخلاقی، تہذیبی اور انسانی فساد پایا جاتا ہے۔ جہاں فساد زیادہ ہوگا وہاں انقلاب کا امکان اتنا ہی بڑھ جائے گا۔ مگر پھر اس انقلاب کے لئے بڑی ابتکاری تخلیقی فکری اور عملی قیادت لازمی ہوگی۔قیادت بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔ یہ ارادتاً بھی پیدا کی جاتی ہے (جیسا کہ ہندستان میں شیخ الہند نے کیا تھا)، اور من جانب اللہ بھی ابھر آتی ہے جیسا کہ ہندستان میں چندرگپت موریہ اوربابر، اناطولیہ میں عثمان خان غازی، امریکہ میں جارج واشنگٹن،تھامس جیفرسن کی شخصیتوں میں دیکھا گیا تھا۔ البتہ یہ اتفاقات کی بات ہے۔ بنیادی کام یہی ہے۔ ان تین خطوں میں اقدام کا انحصار قیادت کی موجودگی پر ہے۔ تینوں علاقوں میں سردست مسلم قیادت نہیں پائی جاتی۔البتہ ضرورت اس قیادت کی تربیت اور اس کو ترتیب دینے کی ہے۔یہ کام کسی مدرسہ میں ہوسکتا ہے، اور وہیں ہوگا۔یہ معاملہ تفصیلی تجزیہ کا مطالبہ کرتا ہے۔
**کیا کام کرنے کے لئے سرمایہ یا کسی دولت مندکی اعانت لازمی ہے؟
جی ہاں۔ سرمایہ قیادت کی ایک اہم ضرورت ہوتا ہے۔مگر یہ وہ سرمایہ نہیں ہے جوعیش پسند مسلم سیاست داں اور حکمراں غیر ملکی بنکوں میں ذخیرہ کرتے ہیں، یا تیل اور اسلحہ کے کاروبار میں بطور رشوت لیتے ہیں۔وہ سرمایہ نہیں ،جہنم کا انگارہ ہوتا ہے۔ان دولت اندوز افراد میں قائدانہ فراست بھی نہیں ہوتی۔ یہ لوگ زوال اور ادبار، پستی اور انحطاط کے کارندے ہوتے ہیں اور قوموں پر بطور سزا مسلط کئے جاتے ہیں۔ سرمایہ اسی وقت مفید ہوتا ہے جب قائدانہ فراست اوراخلاص انقلابی افکار میں لفظوں کی صورت اختیار کرتا ہے۔سرمایہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مادی قیادت کی ضرورت بھی تھا۔ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ اسی ضرورت کی تکمیل فرمارہے تھے کہ ایک سے زائد بار اپنی تمام دولت حضور ؐ کے قدموں میں لاڈالی تھی۔ اور بھی کئی حضراتؓ تھے، جن میں ام المومنین خدیجۃ الکبریٰؓ کا نام سر فہرست ہے۔معاشرہ ترقی کرنا چاہتا ہے تو وہ افراد بھی پیدا کرنے پڑتے ہیں جو تکمیل مقاصد کی صدیقی سنت پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
**کیا واقعی دنیا میں کسی ایسی قوم نے کوئی ترقی کی ہے جس کا خود پر اور اپنی صلاحیت اور استعداد پراعتماد ہی نہ ہو؟
اس سوال کا جوب نفی میں ہے۔ یہی اس عہد کا بڑا مسئلہ ہے۔ وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرسکیں جن کا خود پر اعتماد نہیں ہوتا۔ اس کی تفصیل ستمبر 2009 میں نکتگو/0037 میں لکھ دی تھی۔ وہاں دوبارہ پڑھی جاسکتی ہے۔
یہ جواب ابھی نامکمل ہے۔اس مضمون کا ایک پہلو اور ہے۔
نکتگو کے آئندہ شمارہ میں ان نو دس نکات پر بات کروں گا جو عمرانی ترتیب میں ترقی اور عروج کے مرحلے ہیں۔

بشکریہ: کالم "نکتگو" (سیریز: 042) - امواج
***
Tariq Ghazi
Ottawa, Canada
tariqghazi04[@]yahoo.ca


No comments: