مولانا ثناء اللہ امرتسری
ہمارا دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کی اساس نیکی کا حکم دینے اور بُرائی سے روکنے پر ہے۔ خالق کائنات نے نیکی کا حکم دینے کی خاطر کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کو معبوث فرمایا اور یہ سلسلہ خاتم النبین حضور نبی کریمﷺ پر آ کر تکمیل کو پہنچا۔ لیکن جوں جوں ملتِ اسلامیہ تفریق کے کلیے میں بٹتی گئی، اسلام اور ہمارے عقائد پر اغیار کی یورش برپا ہونے لگی۔
کبھی دین اسلام کی بنیاد پہ مغربی مفکرین نے ضرب لگائی، تو کبھی شدت پسند یہود و نصاریٰ نے اس کے خلاف دشنام طرازیاں کیں۔ کبھی متعصب ہندوئوں نے مخالفانہ پروپیگنڈا کیا، تو کبھی سکھوں نے دین اسلام کو فطرت کے منافی قرار دیا۔ یہ نہ تھمنے والا طوفان بدتمیزی جاری تھا کہ بیسویں صدی عیسوی میں ایک ملعون، مرزا غلام احمد قادیانی نے مارِ آستین کا کام کیا۔ جنوری ۱۸۹۱ء میں اس نے دعویٰ مسیحیت کر دیا۔ اسلام دشمن قوتوں نے اس کو بھرپور تقویت دینے کی ٹھانی اور فتنہ قادیانیت بڑی تیزی پھیلنے لگا۔
اب یہ وقت مسلمان علما کرام کے گھر اور مسجد میں بیٹھنے نہیں بلکہ میدان میں اتر کر طاغوت سے نبردآزما ہونے کا تھا۔ اسی وقت مولانا محمد حسین بٹالویؒ تن تنہا اسلام مخالف قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوئے۔ ان کے استغاثہ پر سید نذیر حسین دہلویؒ نے مرزا قادیانی پر سب سے پہلا فتویٰ تکفیر جاری کیا۔ یہی نہیں بلکہ برصغیر کے نامور علما کرام کے دستخط کروا کر قادنیوں کے کفر پر مہر ثبت کر دی۔ اسی دوران ملت اسلامیہ کے ایک اور عظیم سپوت نے مرزا قادیانی کے چیلنج پر اس کے گھر جا کر اسے للکارا۔ تاریخ اس مردِ حق کو فاتح قادیان‘ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے نام سے جانتی ہے۔
ع مائیں جنتی ہیں ایسے بہادر خال خال
مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ وسیع المطالعہ، وسیع النظر، وسیع المعلومات اور باہمت عالم دین ہی نہیں دین اسلام کے داعی، محقق، متکلم، متعلم، مناظر مصنف، مفسر اور نامور صحافی بھی تھے۔ آبائو اجداد اصلاً کشمیر کے رہنے والے تھے۔ منٹو خاندان سے تعلق تھا۔ والد محترم کا نام خضر تھا جو ۱۸۶۰ء میں ڈوگرا حکمران رانا رنبیر سنگھ کی ستم رانیوں سے تنگ آ کر امرتسر میں سکونت پذیر ہوئے۔ وہیں ۱۸۷۰ء میں مولانا ثناء اللہ نے جنم لیا۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں پائی۔ سات سال کی عمر میں والد اور چودہ برس کی عمر تک پہنچتے والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ اس سے پہلے کہ احساس یتیمی متاثر کرتا، تقدیر آپؒ کو تاریخ میں امر کرنے کا عزم کرچکی تھی۔ بنیادی تعلیم مولانا احمد اللہ امرتسر سے حاصل کرنے کے بعد استاد پنجاب، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے علم حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ ۱۸۸۹ء میں سند فراغت حاصل کر صحیحین پڑھنے دہلی سید نذیر حسین دہلوی کے پاس پہنچے۔
طلب علم کی پیاس ہی کچھ ایسی ہے جو بجھ نہیں پاتی۔ چناںچہ وہاں سے علمی وعملی طور پر بہرہ مند ہونے کے بعد مدرسہ مظاہرالعلوم سہارن پور سے مستفید ہوئے۔ انہی دنوں دارالعلوم دیوبند کی مسند تدریس پر مولانا محمود حسنؒ فائز تھے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری باقاعدہ ان کے حلقہ شاگردی میں بھی شامل ہوئے۔ آپؒ ہمیشہ دیوبند کی سند فراغت کو اپنے لیے باعث افتخار قرار دیتے تھے۔
طلب علم کی پیاس ہی کچھ ایسی ہے جو بجھ نہیں پاتی۔ چناںچہ وہاں سے علمی وعملی طور پر بہرہ مند ہونے کے بعد مدرسہ مظاہرالعلوم سہارن پور سے مستفید ہوئے۔ انہی دنوں دارالعلوم دیوبند کی مسند تدریس پر مولانا محمود حسنؒ فائز تھے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری باقاعدہ ان کے حلقہ شاگردی میں بھی شامل ہوئے۔ آپؒ ہمیشہ دیوبند کی سند فراغت کو اپنے لیے باعث افتخار قرار دیتے تھے۔
ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کے مصداق علم کی پیاس بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔ آپ پھر فیض عام مدرسہ، کانپور پہنچے۔ ۱۸۹۶ء میں مدرسہ فیض عام میں ایک جلسہ ہوا اور آٹھ طلبہ کو سند فراغت دی گئی۔ ان آٹھ طلبہ میں ایک مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ تھے۔ اس کے بعد ۱۹۰۶ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ مولانا کے پیش نگاہ دفاعِ اسلام اور پیغمبر اعظم جناب محمد رسول اللہﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کا کام تھا۔ یہودونصاریٰ کی طرح ہندو بھی اسلام کے درپے آزار تھے۔ مولانا کی اسلامی حمیت نے یہودونصاریٰ، ہندو اور قادیانیوں کو دندان شکن جواب دیے۔ عیسائیت کے رد میں آپ نے درج ذیل کتب لکھیں:
۱۔ تقابل ثلاثہ:۱۹۰۴ء میں پادری ٹھاکردت کی کتاب ’’عدم ضرورت قرآن‘‘ کے جواب میں۔۲۔ جوابات نصاریٰ: ۱۹۳۰ء میں پادری سلطان پال کے جواب میں تحریر کی گئی۔۳۔ توحید تثلیث اور راہ نجات: ۱۹۱۴ء میں شائع ہوئی۔۴۔ اسلام اور مسیحیت: اس میں عیسائیوں کی تین کتابوں کا بخوبی جواب دیا۔۵۔ تفسیر سورۂ یوسف اور تحریفات بائبل: اس میں ثابت کیا کہ عیسائیوں نے ہر دور میں بائبل میں تحریفات کی ہیں۔
یہود و نصاریٰ کے ساتھ ہندو بھی اسلام دشمنی میں پیش پیش تھے۔ آپؒ نے درج ذیل کتب ہندوئوں کو جواب دینے کی خاطر لکھیں:۱۔ حق پرکاش: ۱۹۰۰ء میں طبع ہوئی۔ ستیارتھ پرکاش نے قرآن مجید پرجو ۱۵۹ اعتراضات کیے تھے، مولاناؒ نے ان کا منہ توڑ عالمانہ جواب لکھا۔۲۔ کتاب الرحمن: پنڈت دھرم کی کتاب ’’کتاب اللہ وید ہے یا قرآن‘‘ کا مسکت جواب تحریر کیا۔۳۔ ترک اسلام: غازی محمود المعروف دھرم پال ۱۹۰۳ء میں ہندو ہو کر آریہ سماج چلے گئے اور ایک زہریلی کتاب ’’ترک اسلام‘‘ لکھی۔ اس سے مسلم حلقوں میں کافی بے چینی پھیل گئی۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس کا جواب ’’تُرک اسلام‘‘ کی شکل میں لکھا۔ اسی کتاب کو پڑھ کر دھرم پال دوبارہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔۴۔ مقدس رسولﷺ: بدنام رسالہ ’’رنگیلا رسول‘‘ کے جواب میں لکھی گئی۔ مولانا مرحوم ’’مقدس رسولؐ‘‘ اور ’’اسلام اور مسیحیت‘‘ کو اپنے لیے باعث نجات سمجھتے تھے۔
یہود و نصاریٰ کے ساتھ ہندو بھی اسلام دشمنی میں پیش پیش تھے۔ آپؒ نے درج ذیل کتب ہندوئوں کو جواب دینے کی خاطر لکھیں:۱۔ حق پرکاش: ۱۹۰۰ء میں طبع ہوئی۔ ستیارتھ پرکاش نے قرآن مجید پرجو ۱۵۹ اعتراضات کیے تھے، مولاناؒ نے ان کا منہ توڑ عالمانہ جواب لکھا۔۲۔ کتاب الرحمن: پنڈت دھرم کی کتاب ’’کتاب اللہ وید ہے یا قرآن‘‘ کا مسکت جواب تحریر کیا۔۳۔ ترک اسلام: غازی محمود المعروف دھرم پال ۱۹۰۳ء میں ہندو ہو کر آریہ سماج چلے گئے اور ایک زہریلی کتاب ’’ترک اسلام‘‘ لکھی۔ اس سے مسلم حلقوں میں کافی بے چینی پھیل گئی۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس کا جواب ’’تُرک اسلام‘‘ کی شکل میں لکھا۔ اسی کتاب کو پڑھ کر دھرم پال دوبارہ مشرف بہ اسلام ہو گیا۔۴۔ مقدس رسولﷺ: بدنام رسالہ ’’رنگیلا رسول‘‘ کے جواب میں لکھی گئی۔ مولانا مرحوم ’’مقدس رسولؐ‘‘ اور ’’اسلام اور مسیحیت‘‘ کو اپنے لیے باعث نجات سمجھتے تھے۔
یہ حقیقت ہے کہ آپؒ نے جس سرگرمی و تندہی سے عقیدہ ختم نبوتﷺ کا دفاع کیا، ایسی سعادت کم ہی مسلمانوں کے حصے میں آئی ہے۔ آپؒ نے اسلام کی حقانیت کو ہر موڑ پر ہر حوالے سے ثابت کیا۔ ۱۸۹۱ء میں جب مرزا قادیانی نے دعویٰ مسیحیت کیا‘ آپ اس وقت طالب علم تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں آپؒ نے ردِ قادیانیت کو اختیار کر لیا۔ آپؒ نے پھر قادیانیت کے خلاف اتنا جوش و خروش دکھایا کہ مرزا قادیانی اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گیا۔
ردِ قادیانیت میں مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نے درج ذیل تصانیف لکھیں: ’’تاریخ مرزا، فیصلہ مرزا، الہامات مرزا، نکات مرزا، عجائبات مرزا، علم کلام مرزا، شہادت مرزا، شاہ انگلستان اور مرزا، تحفہ احمدیہ، مباحثہ قادیانی، مکالمہ احمدیہ، فتح ربانی، فاتح قادیان اور بہااللہ اور مرزا۔‘‘ درج بالا تصانیف کے علاوہ آپؒ نے لاتعداد مناظرے کیے اور ہر جگہ اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا۔ آپ بھی مولانا کی حاضر جوابی اور برجستہ گوئی پڑھیے اور سر دھنیے۔
اردو ادب کے نامور ادیب اور مفسر قرآن، مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں، ایک جگہ معروف آریہ سماجی مناظر نے شروع میں ہی خم ٹھونک کر مولانا سے کہا ’’آپ مسلمان ہی کب ہیں جو اسلام کی طرف سے وکیل بن کر آ گئے؟ یہ دیکھیے، مسلمان علما کے فتاویٰ، یہ سب آپ کی تکفیر میں ہیں۔‘‘ یہ کہا اور میز پر فتوئوں کا ڈھیر لگا دیا۔
اردو ادب کے نامور ادیب اور مفسر قرآن، مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں، ایک جگہ معروف آریہ سماجی مناظر نے شروع میں ہی خم ٹھونک کر مولانا سے کہا ’’آپ مسلمان ہی کب ہیں جو اسلام کی طرف سے وکیل بن کر آ گئے؟ یہ دیکھیے، مسلمان علما کے فتاویٰ، یہ سب آپ کی تکفیر میں ہیں۔‘‘ یہ کہا اور میز پر فتوئوں کا ڈھیر لگا دیا۔
جب وہ اپنی کہہ چکا‘ تو مولانا کڑک کر بولے ’’اچھا صاحب! میں ابھی مسلمان ہوتا ہوں اور آپ تمام حاضرین مجلس گواہ رہیں۔‘‘ یہ کہہ کر باآواز بلند کلمہ شہادت پڑھا اور بولے ’’فرمائیے اب تو کوئی عذر باقی نہ رہا؟‘‘ مسلمان خوشی سے باغ باغ ہو گئے اور آریہ سماجی سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ ایک اور جگہ عیسائی مناظر نے دوران مناظرہ کہا ’’اگر آپ کے رسول کریمﷺ کے اتنے ہی مقبول تھے، تو اپنے لخت جگر حسینؓ کو کربلا میں شہید ہوتے دیکھ کر ان کی سفارش کیوں نہ کی؟‘‘ مولانا مرحومؒ نے نہایت متانت سے جواب دیا ’’کہا تو تھا مگر اللہ تعالیٰ نے جواب دیا، ظالم عیسائیوں نے میرے اکلوتے بیٹے مسیح کو صلیب پر لٹکا دیا اور میں کچھ نہ کر سکا، حسینؓ تو پھر بھی تیرا نواسہ ہے۔‘‘
یہ جواب سن کر عیسائی مناظر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا بقول اقبالؒ ع وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کرعقیدہ ختم نبوتؐ کا دفاع کرنے کی تاریخ جب بھی لکھی گئی، اس میں مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کا ذکر سنہرے حروف میں آئے گا۔ آپ۱۵؍مارچ ۱۹۴۸ء کو جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔جب تک روئے کائنات پر ایک بھی مسلمان باقی ہے، عقیدہ ختم نبوتؐ کا تحفظ اور دفاع جاری رہے گا ؎
نہ جب تھا‘ نہ اب ہے‘ نہ ہو گا میسر
شریکِ خدا اور جوابِ محمدؐ
شریکِ خدا اور جوابِ محمدؐ
No comments:
Post a Comment